ایس ای سی پی میں 3.77 ارب روپے کی بے ضابطگیاں، چیئرمین اور کمشنرز کو غیر قانونی تنخواہیں و الاؤنسز، آڈٹ رپورٹ کا انکشاف

ایس ای سی پی میں 3.77 ارب روپے کی بے ضابطگیاں، چیئرمین اور کمشنرز کو غیر قانونی تنخواہیں و الاؤنسز، آڈٹ رپورٹ کا انکشاف

SECP چیئرمین کو 41 کروڑ، کمشنرز کو کروڑوں کی غیر قانونی تنخواہیں، 14 ارب وفاقی خزانے میں جمع نہ کرانے کا انکشاف

آڈٹ رپورٹ میں SECP پر 3.77 ارب روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا الزام ، وزارت خزانہ کی منظوری کے بغیر تنخواہوں میں اضافہ

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ
آڈیٹر جنرل آف پاکستان (اے جی پی) کی جاری کردہ تازہ ترین آڈٹ رپورٹ نے سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے مالی معاملات پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔

رپورٹ میں انکشاف ہوا ہے کہ ادارے کے چیئرمین اور کمشنرز کو اربوں روپے کے غیر مجاز تنخواہوں اور مراعات کی ادائیگی کی گئی، جس میں وزارتِ خزانہ کی پیشگی منظوری شامل نہیں تھی۔

رپورٹ کے مطابق چیئرمین عاکف سعید کو مالی سال 24-2023 میں 41 کروڑ 53 لاکھ روپے کا تنخواہی پیکیج دیا گیا۔ 

ہر کمشنر کو 35 کروڑ 80 لاکھ روپے اضافی تنخواہوں کی مد میں دیے گئے ،11 کروڑ روپے کے تفریحی الاؤنسز بھی چیئرمین، کمشنرز اور عملے میں تقسیم کیے گئے۔ یہ تمام ادائیگیاں پالیسی بورڈ کی منظوری سے کی گئیں، جبکہ بورڈ کے پاس ایسا اختیار ہی موجود نہیں تھا۔

آڈٹ رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ ایس ای سی پی انتظامیہ نے 17 اکتوبر 2024 کو ہونے والے پالیسی بورڈ اجلاس میں ازخود تنخواہوں میں اضافے کی منظوری دی، جسے یکم جولائی 2023 سے مؤثر کر دیا گیا۔ تاہم، یہ فیصلہ وزارتِ خزانہ سے منظوری کے بغیر کیا گیا، جو کہ قانوناً ضروری تھا ۔

رپورٹ کے مطابق مجموعی طور پر 3 ارب 77 کروڑ 22 لاکھ روپے کی غیر قانونی ادائیگیاں کی گئیں۔

آڈٹ رپورٹ میں مزید انکشاف ہوا کہ ایس ای سی پی 7 ارب 11 کروڑ روپے کی آمدنی وفاقی فنڈ میں جمع کرانے میں ناکام رہا۔ 4 ارب 13 کروڑ روپے کی لائسنسنگ اور رجسٹریشن فیس، 59 کروڑ روپے انشورنس سیکٹر سے، 4 کروڑ 77 لاکھ سیکیورٹیز مارکیٹ سے اور 1 ارب 91 کروڑ روپے خصوصی کمپنیوں سے حاصل کیے گئے تھے۔

پبلک فنانس مینجمنٹ ایکٹ 2019 کی شق 37(1) کے مطابق، ایس ای سی پی جیسے ادارے کی تمام آمدن ٹریژری سنگل اکاؤنٹ میں منتقل ہونا ضروری تھی، جس پر عمل نہیں کیا گیا۔

رپورٹ میں وزارتِ خزانہ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ان اضافوں کو منظوری دے یا منسوخ کرے۔ رپورٹ کے مطابق SECP نے نہ صرف اپنی حدود سے تجاوز کیا، بلکہ شفاف مالی نظم و نسق کی صریح خلاف ورزی بھی کی۔


Comments are closed.