اسلام آباد ( زورآور نیوز) سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے ذوالفقار علی بھٹو صدارتی ریفرنس پر سوالات اٹھا دیئے۔ تفسیلات کے مطابق چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں 9 رکنی لارجر بینچ سابق وزیراعظم ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت کررہا ہے، سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے فاروق نائیک سے مکالمہ کیا کہ ’آپ کی درخواست سے پہلے ہم نے لائیو نشریات کا فیصلہ کر لیا تھا، ہرقانونی وارث کا حق ہے کہ اسے سنا جائے، یہ صدارتی ریفرنس ہے توکیا حکومت اس کو اب بھی چلانا چاہتی ہے؟ صدارتی ریفرنس میں صدر صاحب ہم سے کیا چاہتے ہیں؟ کون سے صدر نے یہ ریفرنس فائل کیا ہے؟‘ اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ ’مجھے ہدایات ہیں کہ صدارتی ریفرنس کو حکومت چلانا چاہتی ہے، ریفرنس 15 صفحات پر مشتمل ہے، آصف زرداری نے بطور صدر یہ ریفرنس بھجوایا تھا‘۔اس موقع پر جسٹس منصور علی شاہ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’سپریم کورٹ بھٹو کیس میں فیصلہ سنا چکی اور نظر ثانی بھی خارج ہو چکی، عدالت ایک ختم ہوئے کیس کو دوبارہ کیسے دیکھ سکتی ہے؟ کس قانون کے تحت عدالت ایک ختم ہوئے معاملے کو دوبارہ کھولے؟ آئین میں دوسری نظر ثانی کا تصور نہیں ہے، عدالت نے فیصلہ کیا کرنا ہے یہ تو بتائیں؟‘۔ سپریم کورٹ کے جج نے کہا کہ ’اٹارنی جنرل اپ ہمیں اب اس ریفرنس کے قابل سماعت ہونے ہر مطمئن کریں، آپ ہمیں بتائیں آرٹیکل 186 کے تحت قانونی سوال کیا ہے، آرٹیکل 186 کے تحت دائر صدارتی ریفرنس کے ذریعے سپریم کورٹ کے فیصلوں پر نظرثانی نہیں ہو سکتی، جو فیصلہ حتمی ہوچکا ہے اس کو ٹچ نہیں کرسکتے‘۔جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ ’اب ہم بھٹو فیصلے کو چھو بھی نہیں سکتے، عدالت کو بتائیں کو جو معاملہ حتمی ہو کر ختم ہو چکا اسے دوبارہ کیسے کھولیں؟ فیصلہ برا تھا تو بھی سپریم کورٹ کا فیصلہ حتمی ہے بدلا نہیں جا سکتا، یہ آئینی سوالات ہیں جن کا جواب ضروری ہے، آپ عدالت کو کوئی قانونی حوالہ تو دیں‘۔
Comments are closed.