لڑکی پر گاڑی میں تشدد کا الزام ، ہیلتھ سروس اکیڈمی اسلام آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر شہزاد علی خان کے خلاف مقدمہ درج
اسلام آباد
شمشاد مانگٹ
ہیلتھ سروس اکیڈمی اسلام آباد کے وائس چانسلر ڈاکٹر شہزاد علی خان کے خلاف اپنی یونیورسٹی کی خیبرپختخواہ سے تعلق رکھنے والی نوجوان میڈیکل ڈاکٹر لڑکی پر گاڑی میں تشدد اور زخمی کرنے کے الزام میں اسلام آباد پولیس نے وائس چانسلر کے خلاف مقدمہ درج کر لیا ۔
بٹ گرام کی اس لڑکی کو تین سال پہلے ڈاکٹر شہزاد علی خان نےڈائریکٹر وائس چانسلر کا عہدہ دے کر اپنے ساتھ آفس میں رکھا تھا ۔
جس دن 17 جولائی کو یہ وقوعہ ہوا اس وقت وہ لڑکی یونیورسٹی میں ڈپٹی ڈائریکر کے عہدے پر جاب کررہی تھی ۔
وائس چانسلر ڈاکٹر شہزاد علی خان پر لڑکی نے سنگین الزامات لگائے ہیں کہ ساٹھ سالہ وائس چانسلر نے اس سے محبت کے دعوے کیے، اس سے دوسری شادی کرنے کا وعدہ کیا تھا اور تین سال تک اسے کہتا رہا کہ وہ شادی کرے گا۔ وائس چانسلر پہلے سے شادی شدہ ہے اور اس کے بچوں کی بھی شادی ہوچکی ہے۔
لڑکی کا کہنا ہے وائس چانسلر کا کہنا تھا تم مجھ سے خفیہ شادی کرو تو میں نے انکار کیا اور کہا سب کے سامنے شادی کرو۔
لڑکی کے مطابق وائس چانسلر کا کہنا تھا اس کی بیٹی شادی شدہ ہے اور اس کا کھلے عام اس سے شادی سے برا اثر پڑے گا لہذا خفیہ شادی کرو جس پر وہ انکار کرتی رہی۔
اس دوران اس کے جتنے رشتے آئے وائس چانسر ڈاکٹر شہزاد نے ان سے شادی نہیں ہونے دی اور خود بھی نہیں کی۔ بار بار ٹالنے پر لڑکی کے مطابق اس نے دبائو ڈالا تو اس پر وائس چانسلر نے اسے گاڑی میں تشدد کیا جس سے وہ زخمی ہوگئی (پمز میڈیکل رپورٹ ویمن تھانے جمع کرائی گئی ہے)
میں نے وائس چانسلر ڈاکٹر شہزاد علی خان سے ان کا پوائنٹ آف ویو لیا تو ان کا کہنا تھا تین برس پہلے یہ لڑکی انہیں ملی تو انہوں نے اس کا بہت خیال رکھا کہ وہ متوسط گھرانے سے ہے۔
انہوں نے اس لڑکی کے اکاونٹ میں چار کروڑ روپیہ ٹرانسفر کیا تھا جس میں ایک کروڑ روپیہ کیش تھا کہ اس لڑکی نے اسے کہا تھا کہ وہ اسے جائیداد خرید کر دے گی۔ اب اس نے جائیداد ٹرانسفر کرنے کا کہا تو وہ بلیک میلنگ پر اتر آئی۔
ڈاکٹر شہزاد کا کہنا تھا وہ تین سال سے اس خاتون افسر کو جانتا ہے اور ان کے بٹ گرام گھر بھی گیا تھا اور والدین سے بھی ملتا رہا ۔ اس پر میں نے ڈاکٹر شہزاد سے پوچھا چار کروڑ کی رقم بڑی ہے اور ایک کروڑ کیش آپ کے پاس کہاں سے آیا اور اپنی یونیورسٹی کی ہی خاتون افسر کو ہی کیوں دیتے رہے؟
ڈاکٹر شہزاد نے جواب دیا میں نے گاڑی بیچی تھی اور کچھ اور پیسے میرے پاس تھے اور اس لڑکی نے کہا تھا وہ اسے جائیداد خرید کر دے گی۔
ایک سوال کے جواب میں ڈاکٹر شہزاد علی خان کا کہنا تھا صلح کی کوشش ہوئی تھی لیکن ان کی شرائط بہت سخت اور ناقابل قبول تھیں۔
میں نے وائس چانسلر سے پوچھا آپ کو پتہ ہے لوگ پہلے ہی اپنی لڑکیاں ، بچیاں یونیورسٹی بھیجنے سے گریزاں رہتے ہیں، آپ عام عہدے پر نہیں بلکہ ایک یونیورسٹی کے وائس چانسلر ہیں اب اس واقعہ کے بعد یونیورسٹی کا نام بدنام ہوگا جہاں سینکڑوں فی میل کا داخلہ ہوتا ہے، ٹریننگ دی جاتی ہے؟ ڈاکٹر شہزاد اس کا تسلی بخش جواب نہ دے سکے۔
دریں اثنا وائس چانسلر کے خلاف ایف آئی آر درج کرانے پر اس لڑکی افسر کو یونیوسٹی جاب سے برطرف کر دیا گیا ہے۔
Comments are closed.