پاکستان کے لائیوسٹاک اور ڈیری سیکٹر کی پائیدار ترقی

پاکستان کے لائیوسٹاک اور ڈیری سیکٹر کی پائیدار ترقی

عالمی حلال گوشت مارکیٹ، ناقص پالیسیاں، ادارہ جاتی ناکامیاں، اور ویٹرنری اصلاحات

تحریر :  ڈاکٹر علمدار حسین ملک

پاکستان کی معیشت میں لائیوسٹاک اور ڈیری سیکٹر کی اہمیت ایک بنیادی حقیقت ہے۔ یہ شعبہ نہ صرف زرعی پیداوار کا نصف سے زائد حصہ فراہم کرتا ہے بلکہ کروڑوں دیہی گھرانوں کی معاشی ریڑھ کی ہڈی بھی ہے۔ ملک میں اندازاً 20 کروڑ سے زائد مویشی موجود ہیں، جبکہ دودھ کی پیداوار کے لحاظ سے پاکستان دنیا میں چوتھے نمبر پر ہے۔ لیکن بدقسمتی سے یہ شعبہ آج بھی اپنی ممکنہ صلاحیتوں سے بہت پیچھے ہے، جس کی بڑی وجوہات میں ناکام پالیسی سازی، کمزور سیاسی عزم، ناقص حکمرانی، اور ادارہ جاتی ناکامیاں شامل ہیں۔

پاکستان کے لائیوسٹاک سیکٹر کو وہ توجہ، فنڈنگ، اور سائنسی بنیاد نہیں ملی جس کی اسے اشد ضرورت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جانوروں کی فی کس پیداوار بہت کم ہے، بیماریاں عام ہیں، معیاری چارے، ویکسین، ویٹرنری خدمات اور جدید بریڈنگ ٹیکنالوجیز کی شدید کمی ہے۔ نتیجتاً، یہ شعبہ نہ صرف قومی معیشت بلکہ غذائی تحفظ، زرمبادلہ کمانے اور برآمدات بڑھانے میں بھی اپنی حقیقی صلاحیت ادا کرنے سے قاصر ہے۔

پاکستان جیسے اسلامی ملک کے لیے یہ ایک باعثِ شرم حقیقت ہے کہ عالمی حلال گوشت مارکیٹ جس کی موجودہ مالیت 300 ارب امریکی ڈالر سے تجاوز کر چکی ہے، اس میں پاکستان کا حصہ محض 0.2 فیصد ہے۔ دنیا حلال گوشت کے لیے پاکستان کی طرف دیکھ رہی ہے، مگر ہم ابھی تک نہ سائنسی بنیاد پر ویلیو چین بنا سکے، نہ معیاری ذبح خانے تعمیر کیے گئے، نہ کولڈ چین سسٹمز بنے اور نہ ہی عالمی معیار کی حلال سرٹیفکیشن پالیسی نافذ ہو سکی۔

المیہ یہ ہے کہ 78 سال بعد بھی لائیوسٹاک کی ترقی کے لیے جو اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں وہ اداروں کی ناکامی کا واضح ثبوت بن چکے ہیں۔ حال ہی میں وزارتِ قومی غذائی تحفظ و تحقیق نے “لائیوسٹاک پروموشن کنسلٹنٹ” کو ماہانہ دس لاکھ روپے (One Million Rupees) کے پیکج پر تعینات کیا ہے۔ یہ فیصلہ خود اس بات کا اعتراف ہے کہ وزارت اپنے بنیادی دائرہ کار، جس میں لائیوسٹاک کی ترقی شامل ہے، میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ جبکہ اسی وزارت کے پاس ایک فل فلیجڈ دفتر برائے کمشنر اینیمل ہسبینڈری موجود ہے، پاکستان ایگریکلچرل ریسرچ کونسل (PARC) جیسے قومی ادارے فعال ہیں، اور درجنوں ویٹرنری تعلیمی ادارے برسوں سے کام کر رہے ہیں۔

اگر ان تمام اداروں کے ہوتے ہوئے وزارتِ خوراک کو آج بھی “پتہ نہیں کہ لائیوسٹاک کو کیسے فروغ دینا ہے” تو پھر سوال یہ اٹھتا ہے کہ ایسی وزارت کا مقصد کیا ہے؟ اور اگر پالیسی سازی ہی ایک مہنگے کنسلٹنٹ کے سپرد کرنی ہے تو ملکی ویٹرنری ماہرین، محققین اور اداروں کا کیا مقام رہ جائے گا؟ یہ فیصلہ ایک ایسا لطیفہ ہے جو دراصل قومی ادارہ جاتی زوال کی علامت ہے۔

مزید برآں، ویٹرنری تعلیم کا معیار بھی شدید تنقید کا مستحق ہے۔ بیشتر ادارے صرف تھیوری پر مبنی تعلیم فراہم کر رہے ہیں، جہاں کلینیکل تربیت، سرجیکل مہارت، ڈائیگنوسٹک لیبز اور فیلڈ ایکسپوژر نہایت محدود ہے۔ ایسے ماحول میں فارغ التحصیل ویٹرنری گریجویٹس نہ بیماریوں کی مؤثر تشخیص کر سکتے ہیں، نہ عالمی مارکیٹ کی ضروریات کے مطابق گوشت و دودھ کے معیار کو یقینی بنا سکتے ہیں۔ پاکستان کو ایسے عملی، کلینیکی اور عالمی سطح پر مسابقتی ویٹرنری گریجویٹس کی اشد ضرورت ہے جو لائیوسٹاک انڈسٹری کے ہر پہلو کو سائنسی بنیادوں پر بہتر بنا سکیں۔

حکومت کی غیر مناسب ٹیکس پالیسیوں، جیسا کہ 18 فیصد جی ایس ٹی، نے بھی فارم ٹو مارکیٹ ویلیو چین کو غیر رسمی اور غیر معیاری بنا دیا ہے۔ اس سے مارکیٹ میں غیر محفوظ اور کم معیار کی مصنوعات عام ہو گئی ہیں، جو عوام کی صحت اور برآمدات دونوں کے لیے خطرہ ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ، چھوٹے فارم مالکان، دیہی خواتین، اور مویشی پال کسان جدید سہولیات، مالی معاونت، اور مارکیٹ رسائی سے محروم ہیں — جس کی وجہ ایک بار پھر حکومت کی غفلت، ناقص منصوبہ بندی اور سیاسی عدم سنجیدگی ہے۔

اگر ہم واقعی لائیوسٹاک اور ڈیری سیکٹر کو عالمی معیار پر لے جانا چاہتے ہیں تو ہمیں سب سے پہلے اداروں کی کارکردگی کو جانچنے، پالیسی سازوں کو جواب دہ بنانے، اور سیاسی مداخلت سے پاک، سائنسی و مشاورتی بنیاد پر پالیسی سازی کرنی ہو گی۔ صرف اسی صورت میں پاکستان عالمی حلال گوشت مارکیٹ میں باعزت مقام حاصل کر سکتا ہے اور قومی غذائی تحفظ، معاشی استحکام اور دیہی خوشحالی کا خواب شرمندۂ تعبیر ہو سکتا ہے۔

Comments are closed.