دودھ اور گوشت کی برآمدات میں ناکامی — اربوں ڈالر کا ضائع ہوتا سرمایہ
تحریر: ڈاکٹر علمدار حسین ملک dralamdarhussainmalik@gmail.com
پاکستان دودھ اور گوشت پیدا کرنے والے دنیا کے بڑے ممالک میں شامل ہے، مگر برآمدات کے میدان میں اس کی کارکردگی انتہائی مایوس کن ہے۔ ادارہ جاتی کمزوریوں، پالیسی کے فقدان، اور بین الاقوامی معیار پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث اربوں ڈالر سالانہ ضائع ہو رہے ہیں۔ پاکستان سالانہ تقریباً پینسٹھ ملین ٹن دودھ اور تقریباً چھ ملین ٹن گوشت (جس میں سرخ گوشت اور مرغی کا گوشت دونوں شامل ہیں) پیدا کرتا ہے۔ ان اعداد و شمار کے مطابق پاکستان دنیا کے دس سے بارہ بڑے گوشت پیدا کرنے والے ممالک میں شمار ہوتا ہے، جبکہ دودھ کی پیداوار میں چوتھے نمبر پر ہے۔ اس کے باوجود پاکستان کی دودھ، ڈیری مصنوعات اور گوشت کی برآمدات نہایت کم ہیں۔ عالمی سطح پر دودھ اور گوشت کی بڑھتی ہوئی مانگ کے باوجود پاکستان ان مارکیٹوں سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکا، جو ایک سنگین پالیسی اور ادارہ جاتی ناکامی کی علامت ہے۔
پاکستان اس وقت دودھ پیدا کرنے والا چوتھا اور گوشت پیدا کرنے والے نمایاں ممالک میں شامل ہے، لیکن ہماری برآمدات کا حجم چند کروڑ ڈالر سے آگے نہیں بڑھ سکا۔ پڑوسی ممالک جیسے بھارت، ترکی اور ایران اربوں ڈالر کی ڈیری مصنوعات اور حلال گوشت برآمد کر رہے ہیں، جب کہ پاکستان اپنی بنیادی زرعی طاقت کے باوجود برآمدی میدان میں پیچھے ہے۔ اس ناکامی کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے پہلے، پاکستان میں فوڈ سیفٹی قوانین، ویٹرنری کنٹرول سسٹمز اور حیوانی صحت کی نگرانی کے ادارے بکھرے ہوئے اور کمزور ہیں۔ منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ، محکمہ لائیوسٹاک اینڈ ڈیری ڈویلپمنٹ، اور مختلف فوڈ اتھارٹیز جیسے پنجاب فوڈ اتھارٹی، سندھ فوڈ اتھارٹی، خیبرپختونخوا فوڈ سیفٹی اینڈ حلال فوڈ اتھارٹی، اور بلوچستان فوڈ اتھارٹی کے درمیان ہم آہنگی کا فقدان واضح ہے۔ ہر ادارہ اپنے دائرہ کار میں محدود ہوکر کام کر رہا ہے، جبکہ بین الاقوامی معیار کی تکمیل کے لیے مربوط نظام کی ضرورت ہے۔
ایک اور بڑا مسئلہ سینیٹری اینڈ فائٹو سینیٹری (SPS) معیارات پر عمل درآمد کی کمی ہے۔ عالمی منڈیاں صرف اُن ممالک سے گوشت اور دودھ کی مصنوعات درآمد کرتی ہیں جہاں ٹریس ایبلٹی، بیماریوں پر کنٹرول، اور جانوروں کی فلاح و بہبود کے نظام مؤثر ہوں۔ پاکستان میں نہ صرف ٹریس ایبلٹی سسٹم غیر فعال ہے بلکہ جانوروں کے ذبح خانوں، دودھ کے مراکز، اور پروسیسنگ یونٹس میں بھی مطلوبہ معیار کا فقدان ہے۔ بیشتر سرکاری اور نجی ذبح خانے صفائی، کولڈ چین، اور ویسٹ مینجمنٹ کی سہولتوں سے محروم ہیں، جس سے نہ صرف برآمدات متاثر ہوتی ہیں بلکہ عوامی صحت پر بھی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔
ایکسپورٹ سرٹیفکیشن فریم ورک اور ادارہ جاتی ہم آہنگی کی کمی بھی برآمدات کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان حلال اتھارٹی، پاکستان اسٹینڈرڈز اینڈ کوالٹی کنٹرول اتھارٹی (PSQCA)، ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (TDAP)، اور صوبائی ویٹرنری لیبارٹریز کے درمیان واضح رابطہ موجود نہیں۔ نتیجتاً برآمدی عمل پیچیدہ، مہنگا اور غیر مؤثر بن چکا ہے۔ برآمدکنندگان کو ایک سے زیادہ اداروں کے چکر کاٹنے پڑتے ہیں، جبکہ عالمی خریداروں کا اعتماد کمزور ہوتا جا رہا ہے۔
منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ پر بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قومی سطح پر مؤثر لائیوسٹاک ایکسپورٹ پالیسی تشکیل دے، بیماری سے پاک زونز قائم کرے، اور عالمی SPS معیارات پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ صوبائی محکمے اس پالیسی کے نفاذ، ویکسینیشن، معائنہ، اور جانوروں کی صحت کے پروگراموں کے ذمے دار ہیں، لیکن ان کی کارکردگی غیر یکنواں اور غیر تسلی بخش ہے۔ ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان کو بھی برآمدکنندگان کی رہنمائی اور تکنیکی معاونت میں مؤثر کردار ادا کرنا چاہیے، لیکن اب تک اس ضمن میں خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔
پاکستان کی معیشت ہر سال اربوں ڈالر کا نقصان صرف اس لیے اٹھا رہی ہے کہ ہم اپنی قدرتی اور زرعی صلاحیت کو جدید معیار کے مطابق ڈھالنے میں ناکام ہیں۔ دودھ کا صرف چار فیصد حصہ پراسیسنگ کے عمل سے گزرتا ہے، جبکہ باقی ماندہ حصہ غیر معیاری حالات میں ضائع ہوجاتا ہے۔ اگر حکومت موثر پالیسی اصلاحات، فوڈ سیفٹی کے معیار پر سختی سے عملدرآمد، اور برآمدی سرٹیفکیشن کے جدید نظام کو اپنائے تو پاکستان سالانہ تین سے پانچ ارب ڈالر اضافی برآمدی آمدن حاصل کر سکتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ فوری طور پر قومی لائیوسٹاک ایکسپورٹ پالیسی تشکیل دے، بیماریوں سے پاک زونز قائم کرے، جانوروں کی صحت، ویکسینیشن، اور ٹریس ایبلٹی نظام کو جدید ٹیکنالوجی سے فعال بنائے۔ ذبح خانوں اور دودھ پروسیسنگ یونٹس کے لیے بین الاقوامی معیار کی تصدیق لازمی قرار دی جائے اور پرانے غیر معیاری یونٹس بند کیے جائیں۔ منسٹری آف نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ، فوڈ اتھارٹیز، اور ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے درمیان کوآرڈینیشن سیل قائم کیا جائے تاکہ برآمدی معیار کو یقینی بنایا جا سکے، اور برآمدکنندگان کے لیے مالی مراعات، تربیت اور آسان سرٹیفکیشن نظام متعارف کرایا جائے۔
اگر یہ اقدامات کیے جائیں تو پاکستان دودھ اور گوشت کی برآمدات کے ذریعے اپنی معیشت کو مضبوط بنا سکتا ہے، دیہی معیشت میں استحکام پیدا کر سکتا ہے، اور عالمی حلال فوڈ مارکیٹ میں نمایاں مقام حاصل کر سکتا ہے۔ بصورت دیگر ہم قدرتی وسائل رکھنے کے باوجود دوسروں پر انحصار کرتے رہیں گے۔
Comments are closed.