جب دودھ پیدا کرنا خسارے کا کاروبار بن جائے : یہ انصاف نہیں، معاشی قتل ہے

 جب دودھ پیدا کرنا خسارے کا کاروبار بن جائے : یہ انصاف نہیں، معاشی قتل ہے

ڈاکٹر علمدار حسین ملک

dr.alamdar.h.malik@gmail.com

کراچی کی لانڈھی بھینس کالونی میں ہزاروں دودھ کے کاشتکار آج زندہ رہنے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ یہ وہ محنت کش لوگ ہیں جو دن رات شہر کو تازہ دودھ فراہم کرتے ہیں، مگر اب خود اپنے بچوں کے لیے روٹی پوری کرنے کے قابل نہیں رہے۔ ان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ دودھ پیدا کرتے ہیں اور حکومت نے ان کے دودھ کی قیمت ان کی محنت سے بھی کم مقرر کر رکھی ہے۔

ایک لیٹر دودھ پیدا کرنے کی اوسط لاگت دو سو ستر روپے سے زائد ہے، جبکہ کمشنر آفس کراچی نے زبردستی ایک سو پچانوے روپے فی لیٹر کی قیمت مقرر کی ہے۔ یعنی کسان کو ہر لیٹر پر پچھتر روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ یہ فیصلہ کسی معاشی اصول پر نہیں بلکہ دکھاوے پر مبنی ہے۔

حکومت نے دودھ کو عوامی خوش فہمی کے لیے سستا رکھا ہے، مگر اس فیصلے نے دودھ پیدا کرنے والے کسانوں کی زندگی اجیرن کر دی ہے۔ پیداوار کی لاگت میں بے پناہ اضافہ ہوا ہے۔ آج سبز چارہ جیسے برسیم، جوار، مکئی اور لوسرن، خشک چارہ جیسے بھوسہ، گھاس اور توڑی، اور دانا و فیڈ جیسے چوکر، تل کھل، بنولہ کھل، کپاس کھل، مکئی دانہ، سویابین کھل اور کنولا کھل کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں۔ اس کے ساتھ معدنی آمیزے، وٹامن، دوائیں، مزدوری، بجلی، پانی اور نقل و حمل کے اخراجات نے کسان کی کمر توڑ دی ہے۔

حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت نے ان میں سے کسی چیز پر کوئی قیمت قابو میں نہیں رکھی، نہ ہی کوئی رعایت یا امداد دی، لیکن دودھ پر زبردستی قیمت مقرر کر دی ہے۔ یہ انصاف نہیں بلکہ سراسر ظلم ہے۔ جب پیداوار کی لاگت آزاد منڈی کے رحم و کرم پر ہو تو صرف پیداوار کی قیمت محدود کرنا کسی بھی صنعت کی تباہی کا فارمولا بن جاتا ہے۔

یہ پالیسی صرف کراچی کے کسانوں کو نہیں بلکہ پورے ملک کے مویشی پالنے والوں کو تباہی کے دہانے پر لے آئی ہے۔ خاص طور پر پنجاب میں حالیہ تباہ کن سیلاب نے چارے اور خوراک کی فراہمی کا نظام درہم برہم کر دیا ہے۔ ہزاروں ایکڑ فصلیں پانی میں بہہ گئیں، چارہ نایاب ہو گیا، اور مویشیوں کی خوراک کے نرخ دوگنے سے بھی زیادہ بڑھ چکے ہیں۔ اس کے باوجود کراچی کے کسانوں پر دباؤ ہے کہ وہ دودھ سستا بیچیں ، گویا انہیں اپنی تباہی پر خود دستخط کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہو۔

سب سے افسوسناک بات یہ ہے کہ ملکی سیاست دان اور پالیسی بنانے والے خاموش ہیں۔ نہ قومی اسمبلی میں کوئی آواز اٹھ رہی ہے، نہ صوبائی اسمبلی میں کوئی قرارداد پیش ہو رہی ہے۔ کیا دودھ پیدا کرنے والے کسان پاکستانی نہیں؟ کیا ان کے ووٹ کم قیمت ہیں؟ ایوانوں میں کھاد، گندم، گنا اور کپاس پر لمبی بحثیں ہوتی ہیں، مگر دودھ، گوشت اور مویشیوں پر مکمل خاموشی ہے۔ یہ خاموشی صرف غفلت نہیں بلکہ حکمرانوں کی بے حسی اور نااہلی کا ثبوت ہے۔

پالیسی ساز یہ کیوں نہیں سمجھتے کہ دودھ کی صنعت زراعت کی ریڑھ کی ہڈی ہے؟

اگر کسان ٹوٹ گیا تو نہ صرف دودھ کی فراہمی متاثر ہوگی بلکہ لاکھوں خاندان بے روزگار ہو جائیں گے، شہروں میں دودھ کی قلت اور مہنگائی نئی بلندیوں پر پہنچ جائے گی۔

یہ وقت ہے کہ حکومت جاگے

دودھ کی قیمتوں پر مصنوعی دباؤ ختم کرے، فیڈ، چارے اور توانائی پر رعایت دے، اور دودھ پیدا کرنے والے طبقے کو ریلیف دے۔ورنہ آنے والا بحران صرف کسانوں کا نہیں بلکہ پوری قوم کی غذائی سلامتی کا بحران بن جائے گا۔

Comments are closed.