بریڈ امپرومنٹ کے بغیر سفید انقلاب محض خواب ہے

بریڈ امپرومنٹ کے بغیر سفید انقلاب محض خواب ہے

ڈاکٹر علمدار حسین ملک

دنیا نے نسلیں سنوار کر دودھ کے دریا بہا دیے، اور ہم نے پالیسیوں کے بیابان میں اپنی نسلیں کھو دیں۔

پاکستان کے مویشی پال شعبے کی کہانی دراصل قومی پالیسی کی ناکامیوں کا المیہ ہے۔ یہ وہ شعبہ ہے جس نے ہر حکومت کو روزگار، غذائی تحفظ اور زرِ مبادلہ کی امید دی، مگر بدقسمتی سے ہر حکومت نے اسے اپنے بیوروکریٹک تجربوں اور غلط منصوبہ بندیوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔ نتیجہ یہ کہ آج فی جانور دودھ کی پیداوار اتنی کم ہے کہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک ہم پر ترس کھاتے ہیں۔

یہ صرف کسانوں کی ناکامی نہیں بلکہ ریاستی پالیسی کی مکمل شکست ہے۔ گزشتہ تین دہائیوں میں وفاقی اور صوبائی سطح پر بے شمار پالیسیاں بنیں، کمیٹیاں بنیں، سیمینار ہوئے، لیکن کسی نے یہ سوال نہیں پوچھا کہ آخر اتنے اربوں روپے خرچ کرنے کے باوجود ایک بھی قابلِ پیمائش بریڈ امپرومنٹ کیوں سامنے نہیں آئی؟ ہزاروں منصوبے شروع ہوئے، مگر کوئی ایک جانور بھی عالمی معیار کے مطابق دودھ دینے کے قابل نہیں بنایا جا سکا۔

یہ ناکامی صرف نااہلی نہیں بلکہ مجرمانہ غفلت ہے۔ پالیسی سازوں نے کبھی اصل مسئلے کی جڑ کو نہیں سمجھا — کہ دودھ کی پیداوار صرف خوراک یا ویکسین سے نہیں بڑھتی بلکہ بریڈ امپرومنٹ سے بڑھتی ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے جب دودھ کا انقلاب برپا کیا تو انہوں نے ہر جانور کی نسل کا ریکارڈ رکھا، بہتر نر مویشی منتخب کیے، مصنوعی نسل کشی کو سائنسی بنیادوں پر منظم کیا اور صرف اُن جانوروں کو آگے بڑھنے دیا جو زیادہ دودھ دینے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ پاکستان میں مگر آج بھی نسل کشی کا نظام اندھی تقلید اور کاغذی رپورٹوں کا شکار ہے۔

سب سے زیادہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ویٹرنری جامعات، جو بریڈ امپرومنٹ، جینیاتی تحقیق اور عملی اصلاح کا مرکز بن سکتی تھیں، وہ صرف ڈگریاں بانٹنے کے کارخانے بن گئی ہیں۔ ہر سال سینکڑوں اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد تیار کیے جاتے ہیں، مگر عملی نتیجہ صفر ہے۔ ان اداروں میں تحقیق کے نام پر مقالے تو لکھے جاتے ہیں، مگر کسی گاؤں کے کسان یا فارم پر اس تحقیق کا کوئی اثر نہیں پہنچتا۔ یہ نظام تعلیم نہیں — یہ علمی بددیانتی ہے۔ جب تعلیمی ادارے کھیتوں سے کٹ جائیں، اور جب پالیسی سازوں کو سائنس کی زبان سمجھ نہ آئے، تو ترقی صرف سیمیناروں اور کانفرنسوں تک محدود رہ جاتی ہے۔

پاکستان میں بریڈ امپرومنٹ کا کوئی قومی نظام موجود نہیں۔ نہ کوئی مرکزی ریکارڈ ہے، نہ دودھ کی پیمائش کا معتبر طریقہ، نہ مصنوعی نسل کشی کے معیار طے ہیں۔ یہ تمام منصوبے کاغذوں میں زندہ اور زمین پر مردہ ہیں۔ بیرونِ ملک سے نر مویشیوں کا منیاتی مواد درآمد کر کے اخباری بیانات تو جاری ہو جاتے ہیں، مگر مقامی نسلوں کی بہتری اور حفاظت پر کوئی توجہ نہیں۔ ساہیوال، نیلی راوی اور ریڈ سندھی جیسی تاریخی نسلیں آج زوال کی آخری حدوں پر ہیں۔ یہ محض نااہلی نہیں بلکہ قومی جرم ہے۔

وفاقی وزارتِ خوراک و تحفظِ اجناس اور صوبائی مویشی پال محکمے مل کر بھی ایک ایسا نظام نہ بنا سکے جو نتائج سے مشروط ہو۔ منصوبے بنتے ہیں، افتتاح ہوتے ہیں، فنڈز خرچ ہوتے ہیں — مگر پیداوار وہی کی وہی۔ کسی نے آج تک یہ سوال نہیں اٹھایا کہ ناکامی کا احتساب کون کرے گا؟ اگر کسی ملک میں بیس برس گزرنے کے باوجود فی جانور دودھ کی پیداوار نہیں بڑھتی تو اُس وزارت کا وجود کس کام کا ہے؟ یہ خاموشی دراصل قومی ناکامی کا اقرار ہے۔

اب وقت آ گیا ہے کہ حکومت ایک قومی ادارہ برائے بریڈ امپرومنٹ قائم کرے — جو سیاست سے آزاد ہو اور جس کا واحد مقصد مویشیوں کی نسلوں کی سائنسی بہتری ہو۔ یہ ادارہ پورے ملک میں ریکارڈنگ، جینیاتی شناخت، دودھ کی پیمائش اور افزائش کے معیار کو مربوط کرے۔ ہر منصوبے کو نتائج سے مشروط کیا جائے — اگر پیداوار میں اضافہ نہ ہو تو فنڈ روک دیے جائیں۔

ساتھ ہی، ویٹرنری جامعات کو عملی تحقیق کا مرکز بنایا جائے۔ اساتذہ اور محققین کی کارکردگی کاغذی مقالوں سے نہیں بلکہ کھیتوں اور فارموں کے نتائج سے ناپی جائے۔ جب تک تحقیق کسان تک نہیں پہنچے گی، ملک ترقی نہیں کرے گا۔

پاکستان کے مویشی پال شعبے کو اب صرف بیانات نہیں بلکہ بریڈ امپرومنٹ پر مبنی عملی انقلاب چاہیے۔ پالیسی سازوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ دودھ کی پیداوار محض دودھ کی کہانی نہیں — یہ غذائی تحفظ، دیہی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی اور کروڑوں غریب خاندانوں کی بقا کا مسئلہ ہے۔

اگر اب بھی پالیسی سازوں نے بریڈ امپرومنٹ کو قومی ترجیح نہ بنایا تو پاکستان ہمیشہ کے لیے دودھ اور گوشت کی پیداوار میں پسماندہ ملکوں کی فہرست میں دفن ہو جائے گا۔ یہ وہ لمحہ ہے جب قوم کو نعروں نہیں، فیصلوں کی ضرورت ہے۔ اب حکومت کو رپورٹوں کے بجائے نتائج مانگنے ہوں گے، سیمیناروں کے بجائے کھیتوں پر تبدیلی لانی ہوگی، اور جعلی منصوبوں کے بجائے نسلوں کی حقیقی اصلاح کرنی ہوگی۔ ورنہ آنے والی نسلیں ہمیں معاف نہیں کریں گی — وہ لکھیں گی کہ جب دنیا نے سائنس اور نسلوں کی بہتری سے دودھ کے دریا بہائے، تو ہم صرف تقریروں میں ڈوبے رہے۔

Comments are closed.