کمپیٹیشن کمیشن کی اسٹیل سیکٹر میں کمپٹیشن کی صورتحال پر رپورٹ جاری
اسلام آباد
شمشاد مانگٹ
کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان نے “پاکستان کے اسٹیل سیکٹر میں کمپٹیشن کی صورتحال ” پر ایک جامع رپورٹ جاری کی ہے ۔ رپورٹ میں اسٹیل کی صنعت کو درپیش کمپٹیشن کے مشائل، نئے سرمایہ کاروں کو مارکیٹ میں انٹری کی رکاوٹوں ، قومی اسٹیل پالیسی اور دیگر ترقی یافتہ ممالک کی طرز پر ایک علیحدہ اسٹیل وزارت کے قیام کی سفارش کی گئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان کا مینوفیکچرنگ سیکٹر ملک کی مجموعی برآمدات کا 71 فیصد اور ورک فورس کا تقریباً 15 فیصد حصہ دار ہے۔ لارچ اسکیل انڈسٹری ، مینوفیکچرنگ کے شعبے میں 69 فیصد اور مجموعی قومی پیداوار کا 8.2 فیصد ہے۔ رپورٹ کے مطابق، مالی سال 2024 میں مقامی اسٹیل کی پیداوار 8.4 ملین میٹرک ٹن رہی، جس میں 4.9 ملین میٹرک ٹن لانگ اسٹیل (بلیٹس و انگوٹس) اور 3.5 ملین میٹرک ٹن فلیٹ اسٹیل (کوائل و پلیٹس) شامل تھے۔
اسٹیل سکریپ کی درآمدات 2.7 ملین میٹرک ٹن رہیں، جو خام مال کے لیے بیرونی انحصار کو ظاہر کرتی ہیں۔ پاکستان میں فی کس اسٹیل کھپت صرف 47 کلوگرام رہی جو صنعتی اور تعمیراتی سرگرمیوں کی سست رفتار کو ظاہر کرتی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسٹیل کی بہتر طلب بنیادی طور پر انفراسٹرکچر کی ترقی، شہری آبادی میں اضافے، صنعتی نمو، اور سی پیک جیسے بڑے منصوبوں سے جڑی ہوئی ہے۔ دوسری جانب سپلائی کے مسائل میں خام مال کی کمی، توانائی بحران اور درآمدی انحصار شامل ہیں۔ پاکستان اسٹیل مل، جو ایک وقت میں 1.1 ملین ٹن سالانہ پیداواری صلاحیت اور اہم ایک قومی اثاثہ تھی، 2015 سے غیر فعال ہے اور اس پر 400 ارب روپے کے واجبات ہیں۔ اس کے برعکس چین، بھارت اور روس جیسے ممالک نے اسٹیل کے شعبے میں حکومتی سرپرستی، تکنیکی جدت اور سرمایہ کاری کے ذریعے نمایاں ترقی حاصل کی۔ رپورٹ میں پاکستان کے لیے مقامی کوئلہ اور آئرن اوئر کے ذخائر کی تلاش اور مائنگ کے لئے جدید ٹیکنالوجی کے استعمال اور توانائی کے مؤثر پیداواری طریقوں کو اپنانے کی سفارش کی گئی ہے۔ رپورٹ میں ریگولیٹری کمزوریوں کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس شعبے میں نئے سرمایہ کاروں کو کاروباری آسانیاں حاصل نہیں جبکہ سیکٹر کو بار بار تبدیل ہونے ہونے ایس آر اوز کے ذریعے ریگولیٹ کرنے سے غیر یقینی پیدا ہوتی ہے۔ قومی اسٹیل پالیسی کو بھی از سر نو جائزہ کی ضرورت ہے۔ کمزور انفورسمنٹ کے باعث مارکیٹ میں دستیاب 50 فیصد تک اسٹیل ناقص معیار کا ہے۔ مزید ازاں، سابق فاٹا/پاٹا علاقوں میں ٹیکس استثنیٰ سے 1.5 ملین ٹن بغیر ٹیکس اسٹیل ، ملک کلے سیٹلڈ علاقوں میں واپس منتقل ہو رہا ہے، جس سے قومی خزانے کو تقریباً 40 ارب روپے کا نقصان ہوتا ہے۔ رپورٹ میں شعبے کی بہتری کے لیے سفارش کی گئی ہے کہ قومی اسٹیل پالیسی کا از سر نو جائزہ لیتے ہوئے ایک مستحکم اور دیر پا پالیسی ترتیب دی جائے، ٹیکسوں کی شرح کو معقول کیا جائے اور اینٹی ڈمپنگ کی روک تھام کے لئے سخت اقدامات کئے جائیں۔ وزارتِ صنعت و تجارت کو فعال بنایا جائے ، معیاری اسٹیل کی پیداوار کے اسٹینڈرز کے نفاذ کو یقینی بنایا جائے اور غیر رجسٹرڈ چھوٹے اسٹیل یونٹس کو رجسٹر کیا جائے۔ سابق فاٹا/پاٹا کی ٹیکس چھوٹ ختم کی جائے۔
معیاری اسٹیل کی پیداوار اور لاگت میں کمی کے لئے ٹیکنالوجی کے استعمال کر فروغ دیا جائے، آئرن اوئر کی مائننگ کی حوصلہ افزائی کی جائے اور ویلیو ایڈیشن اور گرین ٹیکنالوجیز کے استعمال کو بڑھایا جائے۔ کمپیٹیشن کمیشن تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر اسٹیل سیکٹر میں پائیدار، شفاف اور مسابقتی اصلاحات کے فروغ کے لیے کام جاری رکھے گا ۔ رپورٹ کمیشن کی ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔
Comments are closed.