طالبان حکومت کے خاتمے کیلئے معمولی قوت چاہیے، وزیر دفاع
اسلام آباد
شمشاد مانگٹ
وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ جنگ کے خواہاں طالبان عناصر نے شاید پاکستان کی طاقت اور عزم کا غلط اندازہ لگایا اور اگر طالبان لڑائی پر آمادہ ہیں تو دنیا ان کی دھمکیوں کو محض ایک تماشا سمجھے گی جب کہ طالبان حکومت کے خاتمے اور دوبارہ غاروں میں دکھیلنے کے لیے معمولی قوت چاہیے۔
افغانستان اور پاکستان کے درمیان استنبول میں مذاکرات ناکام ہونے کے بعد وزیرِ دفاع خواجہ آصف نے افغان طالبان کو سخت الفاظ میں خبردار کیا کہ اگر وہ اسلام آباد کے عزم کو آزمانا چاہتے ہیں تو ’اپنے انجام اور بربادی پر‘ آزمائیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر کی گئی پوسٹ میں خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’ہم نے آپ کی بے وفائی اور تمسخر برداشت کی ہے مگر اب اور نہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اندر کسی بھی دہشت گردانہ حملے یا خودکش دھماکے کی صورت میں ہم آپ کو ایسی مہم جوئیوں کا تلخ ذائقہ ضرور چکھائیں گے۔
وزیرِ دفاع نے کہا کہ پاکستان نے برادر ممالک کی درخواست پر امن کو ایک موقع دینے کے لیے مذاکرات میں حصہ لیا، جنہیں کابل کے حکمران بار بار التجا کرتے رہے، مگر کچھ افغان عہدیداروں کے زہریلے بیانات طالبان حکومت کے مکار اور انتشار پسند ذہنیت کی واضح عکاسی کرتے ہیں۔
پوسٹ میں انہوں نے مزید لکھا کہ ’میں انہیں یقین دلانا چاہتا ہوں کہ پاکستان کو طالبان عہد کو مکمل طور پر ختم کرنے اور انہیں دوبارہ غاروں میں چھپنے پر مجبور کرنے کے لیے اپنی عسکری قوت کے معمولی استعمال کی بھی ضرورت نہیں‘۔
انہوں نے لکھا کہ ’افغان طالبان اگر چاہیں تو تورابورا میں ان کے فرار کے مناظر دوبارہ دیکھنےکو مل سکتے ہیں اور افغان طالبان کے فرار کی حالت خطے کے عوام ضرور دیکھنا پسند کریں گے‘۔
خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ ’یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ طالبان اپنی غصبانہ حکمرانی کو برقرار رکھنے اور انہیں سہارا دینے والی جنگی معیشت کو برقرار رکھنے کے لیے اندھا دھند طور پر افغانستان کو ایک اور تنازع کی طرف دھکیل رہے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’اپنی ذاتی حدود اور جنگی نعروں کے خالی پن کو بخوبی جانتے ہوئے بھی وہ اپنے بگڑتے ہوئے ظاہری روپ کو بچانے کے لیے جنگی ڈھول بجا رہے ہیں‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’اگر افغان طالبان حکومت دیوانگی کی حد تک دوبارہ افغانستان اور اس کے معصوم لوگوں کو تباہ کرنے پر تُلی ہوئی ہے تو جو ہونا ہے وہ ہو‘۔
اپنے پیغام میں وزیر دفاع نے کہا کہ جہاں تک ‘سلطنتوں کی قبروں’ کے بیانیے کا تعلق ہے، پاکستان یقینی طور پر خود کوئی سلطنت ہونے کا دعویدار نہیں ہے، تاہم افغانستان کبھی سلطنتوں کی قبرستان نہیں رہا، درحقیقت اپنے ہی لوگوں کے لیے ایک قبرستان ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ طالبان حکومت کے اندر جنگی شوقین، جن کے مفادات اس خطے میں عدم استحکام کے تسلسل میں منسلک ہیں، انہیں جان لینا چاہیے کہ شاید انہوں نے ہمارے عزم اور حوصلے کا غلط اندازہ لگا لیا ہے۔
خواجہ آصف کا مزید کہنا تھا کہ ’اگر طالبان حکومت ہم سے لڑنا چاہتی ہے تو، ان شااللہ دنیا ان کی دھمکیوں کو محض ایک تماشا سمجھے گی‘۔
اس سے قبل، وفاقی وزیر اطلاعات عطا اللہ تارڑ نے اعلان کیا کہ استنبول میں اسلام آباد اور کابل کے درمیان ہونے والے تازہ ترین مذاکرات ناکام ہوگئے ہیں۔
گزشتہ چند دنوں میں دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بگاڑ پیدا ہوا، جس میں سرحدی جھڑپیں، جوابی بیانات اور الزامات شامل تھے۔
یہ کشیدگی اس ماہ کے آغاز میں اُس وقت شروع ہوئی جب 11 اکتوبر کی رات افغان سرحد کی جانب سے پاکستان پر حملہ کیا گیا، یہ حملہ اس الزام کے بعد ہوا تھا کہ پاکستان نے افغانستان میں فضائی حملے کیے ہیں۔
اسلام آباد طویل عرصے سے طالبان سے یہ مطالبہ کرتا آیا ہے کہ وہ دہشت گرد گروہوں کو پاکستان کے خلاف اپنی سرزمین استعمال کرنے سے روکیں۔
تاہم طالبان اس الزام کی تردید کرتے ہیں کہ وہ افغان سرزمین سے دہشت گردوں کو کارروائیوں کی اجازت دیتے ہیں۔
اسی دوران، پاکستان دہشت گردی کے مسئلے سے نمٹنے کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہے اور خفیہ معلومات پر مبنی کارروائیوں میں اس کے سیکیورٹی اہلکاروں کو متعدد جانی نقصان اٹھانا پڑا ہے۔
11 اکتوبر کی ابتدائی جھڑپ کے بعد پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر مزید کئی جھڑپیں ہوئیں، اس دوران، اسلام آباد کی جانب سے افغانستان میں گل بہادر گروپ کے کیمپوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔
بالآخر، دونوں فریق دوحہ میں مذاکرات کی میز پر آئے، جس کے نتیجے میں ایک عارضی جنگ بندی طے پائی، اور اس بات پر اتفاق ہوا کہ دونوں ممالک کے درمیان پائیدار امن اور استحکام کے لیے ایک طریقہ کار تیار کرنے پر استنبول میں دوبارہ ملاقات کی جائے گی۔
تاہم، دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور ترکیہ کے شہر استبول میں 3 روز تک جاری رہا مگر اس میں کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔
منگل کو ترک اور قطری ثالث کاروں نے مذاکرات کو بچانے کی کوشش کی، جب پاکستان اور افغانستان کے طالبان کے درمیان بات چیت مختصر طور پر ’ناقابلِ حل اختلافات‘ کی وجہ سے ٹوٹ گئی تھی۔
ایک پاکستانی سیکیورٹی ذرائع نے رپورٹرز کو بتایا کہ مذاکرات ’افغان طالبان کی طرف سے دہشت گردی سے متعلق مسائل کے حل کے لیے عزم اور سنجیدگی کی کمی اور کسی تحریری یقین دہانی فراہم کرنے سے انکار‘ کے بعد ناکام ہوئے۔
افغان فریق کی جانب سے صحافیوں کو بتایا گیا کہ مذاکرات بلا نتیجہ ختم ہوئے، اور کابل میں حکام نے پاکستانی وفد پر غلط رویہ اور ’ایسے مطالبات جو افغانستان کے لیے ناقابلِ قبول ہیں‘ کرنے کا الزام لگایا۔

Comments are closed.