اسٹیبلشمنٹ کے دو طاقتور ہاتھی نگران وزیراعظم اور چیئرمین سینٹ آپس میں ٹکرا گئے ہیں

اسلام آباد(ناصر جمال) اسٹیبلشمنٹ کے دو طاقتور ہاتھی نگران وزیراعظم اور چیئرمین سینٹ آپس میں ٹکرا گئے ہیں۔ نگران وزیراعظم نے صادق سنجرانی کے بھائی، رزاق سنجرانی کو پاکستان سیندک میٹلز کی ایم۔ ڈی شپ سے ہٹا دیا۔ چیئرمین سینٹ کا بازو مروڑنے کے لئے، اُن کے بھائی کو ٹارگٹ کیا گیا ہے۔ اور ان کو ہٹانے میں انتہائی عجلت میں کام کیا گیا۔ معتبر ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعظم آفس نے پٹرولیم ڈویژن اور بورڈ آف ڈائریکٹرز پر دبائو ڈالا کہ وہ وزیر اعظم آفس سے آئے ہوئے خط کی حمایت میں قرارداد منظور کریں۔رات گٸے بورڈ سے ایم۔ ڈی کو ہٹوانے کا متنازعہ فیصلہ کروایا گیا۔ جس کی وزیراعظم نے اختیار نہ ہونے کے باوجود رزاق سنجرانی کو ان کے عہدے سے ہٹانے کی منظوری دی۔جبکہ ایم ڈی کو ہٹانے کا اختیار وفاقی کابینہ کا ہے۔ وزارت توانائی پٹرولیم ڈویژن نے اس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن جاری کردیا۔
سنجرانی فیملی کے قریبی ذرائع نے اس کاروائی کو سیاسی انتقامی اور غیر قانونی کاروائی قرار دیتے ہوئے۔ اس کو مطلقہ عدالتی پلیٹ فارم پر چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے۔
معتبر ذرائع کے مطابق بلوچستان کے نگران پٹھان وزیراعظم، بلوچستان کے بلوچ چیئرمین کے مابین شدید سیاسی اختلافات، آخر کار کُھل کر سامنے آ ہی گئے ہیں۔ دونوں کو ہی اسٹیبلشمنٹ کے قریب تصور کیا جاتا ہے۔صادق سنجرانی کے اسٹیبلشمنٹ سے دو دہائیوں سے قریبی تعلقات ہیں۔ جبکہ صادق سنجرانی پیپلز پارٹی اور آصف زرداری سے بھی بہت قربت رکھتے تھے۔ اُن کے چیئرمین سینٹ بنانے اور ہٹائے جانے کی دونوں بار کوششوں میں اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ کھڑی نظر آئی۔ اور وہ اس میں خوش نصیب فاتح بھی رہے۔ صادق سنجرانی کی چیئرمین شپ کی مدت مارچ میں ختم ہونے جارہی ہے۔ وہ نگران حکومت میں وزارت عظمیٰ کے امیدرار بھی تھے۔
اب صادق سنجرانی، مرکز کی بجائے، صوبے میں وزارت اعلیٰ کے متوقع اُمیدوار ہو سکتےہیں۔ وہ ن لیگ کی جانب کافی جھکائو رکھتے ہیں۔ اس لئے، بلوچستان عوامی پارٹی سے اُن کے راستے الگ ہوتے نظر آرہے تھے۔ ”باپ “کی تحلیل، نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کے لئے، سب سے بڑا دھچکا ہوگی۔ جس کے اب واضح ترین امکانات ظاہر بھی ہوچکے ہیں۔ ان پر دبائو ڈالنے کے لئے، ان کے بھائی ایم۔ ڈی سیندک میٹلز رزاق سنجرانی کو ٹارگٹ کیا گیا۔ پٹرولیم ڈویژن کے ذرائع کا کہناہے کہ وزیراعظم آفس، اس ضمن میں کئی دنوں سے متحرک تھا۔ سیندک میٹل کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کو رزاق سنجرانی کو ہٹانے کے لئے قائل کررہا تھا۔ جمعہ کے روز وزارت توانائی نے ہنگامی میٹنگ بلانے اور دس رکنی بورڈ کو اجلاس بلانے کےلئے رابطے کئے۔ جس پر بورڈ ممبران حیران و پریشان تھے۔ یہ رابطے ساڑھے چھ بجے شام کو شروع ہوئے۔ ممبران ایجنڈا پوچھتے رہے۔ بمشکل آخری وقت میں بتایا گیا کہ ایجنڈا۔ ایم۔ ڈی کو ہٹانے کا ہے۔ مبینہ طور پر 7:30 پر بورڈ میٹنگ کا نوٹس ممبران کو ملا۔ 8:15 سے 820 پر میٹنگ شروع ہوئی تو 8 ممبران تھے۔ بعد ازاں دو ممبران آن لائن شریک ہوئے۔ بورڈ کے آزاد اراکین نے وزیراعظم کے خط پر ایم۔ ڈی کو ہٹانے کی شدید مخالفت اور اسے قوانین کے برعکس قرار دیا۔ بورڈ ممبران نے کہا کہ سپریم کورٹ مصطفی ایپکس کیس میں قرار دے چکی ہے کہ یہ وزیراعظم نہیں وفاقی حکومت کا اختیار ہے۔وفاقی حکومت سے مراد وزیراعظم نہیں وفاقی کابینہ ہے۔ ہم آنکھیں بند کرکے، بغیر کسی ریکارڈ اور دستاویزات کے بغیر، اسے کیسے لے سکتے ہیں۔ چیئرمین نے اعتراضات اوور رول کردیئے۔ ممبران نے ایجنڈا چھپانےپر احتجاج بھی کیا۔ بورڈ ممبران نے کہا کہ جو طریقہ، آپ وزیراعظم کی خواہش پوری کرنے کے لئے اپنا رہے ہیں۔ یہ عدالت میں فوری طور پر اُڑ جائے گا۔ یہ کارپوریٹ گورننس رولز کی کھلم کُھلا خلاف ورزی ہے۔اس بات پر بورڈمیں اڑھائی گھنٹے گرما گرم بحث ہوئی۔ بورڈ اراکین کا کہنا تھا، وزیراعظم کے خط پر قرارداد پاس نہیں ہوسکتی۔اگر اپ ایم ڈی کو ہٹانا چاہتے ہیں تو قانونی طریقہ اختیار کریں۔رولز کو سبوتاژ نہ کریں۔اس پر جب ووٹنگ ہوئی تو جہاز میں موجود ایک رکن خالد صاحب کی حاضری لگانے کے باوجود، اُسے ووٹ نہیں کرنے دیا گیا۔
قوانین کے مطابق دس میں سے 8 اراکین ایم۔ ڈی ہٹانے کے لئے درکار تھے۔ مگر دس کی بجائے، نو راکین کا ووٹ ہوا۔ سات نے حمایت دو نے مخالفت کی۔ جس کے تحت قرارداد، دو تہائی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام ہوگئی۔ مگر پٹرولیم ڈویژن کے افسران نے کہا کہ نو کی دوتہائی کائونٹ ہوگی۔ جس پر پھر بحث ہوئی کہ دس کی دو تہائی اکثریت ہونی چاہئے۔ مگر چیئرمین بورڈ نے زبردستی، قرارداد کی منظوری کا لیٹر جاری کر دیا۔ اس دوران تین آزاد ڈائریکٹرز کو بورڈ سے ہٹانے کی دھمکیاں بھی دی گئیں۔
دسویں رکن بورڈ میٹنگ سے ختم ہونے سے پہلے ہی پہنچ گئے۔ مگر انھیں پھر بھی ووٹ نہیں کرنے دیا گیا۔اور نہ ہی ان کا اختلافی نوٹ لیا گیا۔جس پر بورڈ ممبر نے بورڈ چیئرمین اور چیئرمین ایس۔ ای۔ سی۔ پی کو اپنے تحفظات پر مبنی خط بھیجا ہے۔ جس میں کارپوریٹ گورننس رولز کی پامالی پر احتجاج کیا گیا ہے۔
بورڈ میٹنگ کے لئے، ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا۔ جب چیئرمین سینٹ صادق سنجرانی، عراق سے دُبئی کے لئے فلائیٹ میں تھے۔ وہ بورڈ میٹنگ ختم ہونے کے بعد، دُبئی میں لینڈ ھوئے۔ وہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب اسلام آباد میں ہونگے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ بورڈ کے اس غیر قانونی اقدام کے خلاف رزاق سنجرانی سوموار کے روز اسلام آباد یا بلوچستان ہائی کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔
جبکہ قانونی ماہر بیرسٹر حمدون سبحانی نے کہا کہ کارپوریٹ گورننس رولز اور کمپنی لاء کے تحت، ریکارڈ اور ایجنڈے کی رولز میں طے کیے گئے وقت پر فراہمی ضروری ہے۔ دو تہائی اکثریت، بورڈ کے کل ممبران کے تحت ہوگی۔ جتنی حاضری ہے۔ اتنے ووٹ شمار ہونگے۔ ووٹ نہ لینا، خلاف قانون ہے۔ وفاقی حکومت، وزیراعظم نہیں ہے۔ یہاں تو پاس کی گئی قرارداد ہی متنازعہ ہے۔ووٹنگ تو بعد میں اتی ہے۔ یہ سپریم کورٹ طے کرچکی ہے۔ میری رائے ہے کہ بورڈ کا غیر قانونی اقدام، عدالت میں جاتے ہی فارغ ھو جائے گا۔

Comments are closed.