ایف بی آر کا ٹک ٹاکرز پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ

ایف بی آر کا ٹک ٹاکرز پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ ، پارلیمانی کمیٹی میں ترسیلاتِ زر سبسڈی اسکینڈل پر بھی بحث

اسلام آباد

ولی الرحمن

فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے سوشل میڈیا خصوصاً ٹک ٹاک کے ذریعے آمدن حاصل کرنے والے مواد تخلیق کاروں (ٹک ٹاکرز) پر ٹیکس عائد کرنے کی تیاری شروع کر دی ہے۔ اس بات کا انکشاف سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و ریونیو کے اجلاس میں بدھ کے روز کیا گیا۔

اجلاس کے دوران سینیٹر فیصل واڈا نے دعویٰ کیا کہ ایف بی آر اس منصوبے کو حتمی شکل دے چکا ہے، اور امکان ہے کہ اس مد میں سب سے زیادہ ٹیکس پنجاب سے اکٹھا کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ ایف بی آر کو پنجاب سے عمل درآمد کا آغاز کرنا چاہیے تاکہ مؤثر نتائج سامنے آئیں۔

اجلاس کی صدارت سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے کی، جس میں پاکستان ریمٹینسز انیشی ایٹو (پی آر آئی) اور ترسیلاتِ زر پر حکومت کی سبسڈی پالیسی کا بھی تفصیلی جائزہ لیا گیا۔ اسٹیٹ بینک کے ڈپٹی گورنر نے بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ 2020 میں سمندر پار پاکستانیوں کی سہولت کے لیے فی ٹرانزیکشن 20 سعودی ریال کی سبسڈی دی جاتی تھی، جو 2024 میں 30 ریال تک بڑھائی گئی، مگر بعد ازاں دوبارہ 20 ریال کر دی گئی۔

سینیٹر فیصل واڈا نے اس پالیسی کو “اسکینڈل” قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ کمرشل بینکس اس اسکیم سے ناجائز فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ اس معاملے کی باضابطہ انکوائری کی جائے اور مبینہ طور پر خوردبرد کی گئی رقوم واپس لی جائیں۔

کمیٹی کے چیئرمین سلیم مانڈوی والا نے بھی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پی آر آئی کا مقصد تو سمندر پار پاکستانیوں کو سہولت دینا تھا، مگر حقیقت میں اس کے مالی فوائد بینکوں اور منی ٹرانسفر آپریٹرز تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ انہوں نے سفارش کی کہ ٹرانزیکشن اخراجات میں کمی لائی جائے اور نظام میں شفافیت بڑھائی جائے تاکہ ترسیلات کی اصل رقم مستحقین تک پہنچ سکے۔

کمیٹی نے وزارت خزانہ کو ہدایت دی کہ گزشتہ تین سے چار سالوں کے دوران دی گئی سبسڈی، اس پر آنے والے اخراجات اور واپس لی گئی رقوم کی مکمل تفصیلات فراہم کی جائیں۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ پی آر آئی کے فریم ورک کا ازسرِنو جائزہ لے کر اس میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے۔

اجلاس میں وزیر مملکت برائے خزانہ و ریونیو بلال اظہر کیانی نے یقین دہانی کرائی کہ اسٹیٹ بینک اور دیگر متعلقہ اداروں کے ساتھ مشاورت کے بعد نظام کو بہتر بنایا جائے گا اور نفاذ میں موجود خلا کو دور کیا جائے گا۔

ایف بی آر کے چیئرمین نے اجلاس کو آگاہ کیا کہ 16 جولائی 2025 کو جاری ہونے والے صدارتی آرڈیننس پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا، کیونکہ یہ معاملہ سندھ ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔

Comments are closed.