گلوبل صمود فلوٹیلا ہائی رسک زون میں داخل، اسرائیلی حملے کے خدشات

گلوبل صمود فلوٹیلا ہائی رسک زون میں داخل ، اسرائیلی حملے کے خدشات

دوحہ

غزہ کے مظلوم شہریوں کے لیے انسانی امداد لے جانے والا بین الاقوامی امدادی قافلہ “گلوبل صمود فلوٹیلا” اسرائیلی محاصرے کو توڑنے کے مشن پر ہائی رسک زون میں داخل ہو چکا ہے، جہاں ماضی میں امدادی قافلوں کو روکنے، نشانہ بنانے اور کشتیوں کو غرق کرنے جیسے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ 40 سے زائد کشتیوں پر مشتمل اس فلوٹیلا میں 500 سے زائد افراد سوار ہیں، جن میں عالمی پارلیمنٹیرینز، وکلاء، انسانی حقوق کارکنان اور مشہور ماحولیاتی کارکن گریٹا تھنبرگ بھی شامل ہیں۔

فلوٹیلا کی جانب سے جاری پیغام میں کہا گیا ہے کہ جیسے جیسے ہم اپنی منزل غزہ کے قریب پہنچ رہے ہیں، ہمارے اردگرد ڈرونز کی پروازیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ کئی کشتیوں کے قریب نامعلوم جہاز آئے، جن میں بعض بغیر روشنیوں کے چل رہے تھے، اور مختصر وقت کے بعد وہاں سے چلے گئے۔ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر امدادی کارکنان نے حفاظتی پروٹوکول پر عملدرآمد شروع کر دیا ہے۔

قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق فلوٹیلا کا اسرائیلی بحریہ سے پہلا سامنا بھی ہو چکا ہے۔ بحریہ کے جہازوں نے فلوٹیلا کی مرکزی کشتی “الما” کو چھ منٹ تک گھیرے میں لیے رکھا اور اس دوران اس کا مواصلاتی نظام غیر فعال کر دیا۔ کشتی کے کپتان کو براہ راست تصادم سے بچنے کے لیے سخت موڑ لینا پڑا۔ اسی طرح کی کارروائی کشتی “سیریئس” کے ارد گرد بھی کی گئی۔ رات بھر دیگر فوجی جہازوں کی موجودگی کی بھی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔

گلوبل صمود فلوٹیلا کے مطابق وہ ممکنہ جارحیت یا رکاوٹوں کا سامنا کرنے کے لیے مکمل تیار ہیں۔ یورپی پارلیمنٹ کی رکن، فرانسیسی نژاد فلسطینی سیاستدان ریما حسن نے ایکس (سابقہ ٹوئٹر) پر کہا کہ “ہر کلو میٹر ایک اضافی علامتی فتح ہے”، اور انہوں نے امید ظاہر کی کہ وہ کل غزہ پہنچ جائیں گے۔

فلوٹیلا میں شریک پاکستانی وفد کے رکن، جماعت اسلامی کے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان نے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ غزہ کے قریب پہنچ چکے ہیں، اور اب دور سے اسرائیلی بحری جہاز ان کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ان کا موبائل فون اسرائیلی سائبر کارروائی کے ذریعے جام کیا جا چکا ہے، جس کے بعد انہوں نے اسے سمندر میں پھینک دیا۔ انہوں نے پاکستانی قوم سے اپیل کی کہ تمام مذہبی و سیاسی جماعتیں امریکی سفارتخانے کے باہر غیر معینہ المدت پرامن دھرنا دیں کیونکہ امریکہ اس نسل کشی میں اسرائیل کا ساتھ دے رہا ہے۔

الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی نشریاتی ادارے “وائی نیٹ” نے بتایا ہے کہ اسرائیلی بحریہ کی ایلیٹ فورس شایتیٹ 13، دیگر بحری دستوں کے ساتھ مل کر فلوٹیلا کی کشتیوں پر قابو پانے کے لیے تیار ہے۔ تقریباً 500 پولیس اہلکار اشدود بندرگاہ پر تعینات کیے جا رہے ہیں۔ یہ بھی اطلاع دی گئی ہے کہ جب فلوٹیلا کے ارکان کو گرفتار کیا جائے گا تو انہیں کتزیوت جیل منتقل کیا جائے گا، اور جو کارکن تعاون کریں گے، انہیں ان کے آبائی ممالک واپس بھیج دیا جائے گا۔ بعض کشتیوں کو ساحل تک لایا جائے گا، جبکہ دیگر کو سمندر برد کرنے کا منصوبہ بھی سامنے آیا ہے۔

اسی دوران، اٹلی نے اعلان کیا ہے کہ وہ فلوٹیلا کی نگرانی کے لیے تعینات اپنا بحری جہاز واپس بلا رہا ہے۔ اطالوی وزارتِ دفاع کے مطابق ان کا جہاز صرف نگرانی کے لیے تھا اور کسی ممکنہ تصادم یا فوجی کارروائی کا حصہ نہیں بنے گا۔ انہوں نے فلوٹیلا کو مشورہ دیا ہے کہ امداد کو قبرص میں اتار دیا جائے تاکہ اسرائیلی کارروائی سے بچا جا سکے۔

اقوام متحدہ کی فلسطین کے لیے خصوصی نمائندہ فرانچیسکا البانیز نے اٹلی کے فیصلے پر شدید تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ اٹلی نے فلوٹیلا کو اُس وقت تنہا چھوڑ دیا جب وہ انسانی ہمدردی کے مشن پر خطرناک علاقے میں داخل ہو رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ یہ اقدام اسرائیل کو مزید جرائم کرنے کی اجازت دینے کے مترادف ہے۔

ادھر کولمبیا کے صدر گستاوو پیٹرو نے ایکس پر بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ فلوٹیلا پر کسی بھی حملے کو بین الاقوامی قانون کی کھلی خلاف ورزی اور انسانیت کے خلاف جرم تصور کیا جائے گا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ فلوٹیلا کے تمام ارکان کی زندگی اور سلامتی کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے بتایا کہ فلوٹیلا میں دو کولمبیائی شہری منویلا بیڈویا اور لونا بریٹو بھی شامل ہیں۔

بین الاقوامی برادری اس انسانی قافلے کی سلامتی کے حوالے سے تشویش میں مبتلا ہے، جب کہ اسرائیل کی جانب سے کسی بھی ممکنہ کارروائی کا خطرہ بدستور موجود ہے۔ اگر صمود فلوٹیلا پر حملہ ہوتا ہے، تو یہ عالمی سطح پر سخت ردعمل اور قانونی نتائج کا باعث بن سکتا ہے۔

Comments are closed.