دوحہ میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان اہم مذاکرات آج متوقع

دوحہ میں پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان اہم مذاکرات آج متوقع

طالبان کی جانب سے عارضی جنگ بندی کے بعد مذاکرات کی درخواست؛ پاکستان نے 48 گھنٹوں کی سیز فائر پر آمادگی ظاہر کی، سرحدی جھڑپوں کے بعد صورتحال حساس

دوحہ / اسلام آباد

پاکستان اور افغان طالبان کے اعلیٰ سطحی وفود کے درمیان آج قطر کے دارالحکومت دوحہ میں اہم مذاکرات متوقع ہیں۔ مذاکرات کا مقصد حالیہ سرحدی جھڑپوں کے بعد پیدا ہونے والی کشیدہ صورتحال کو بہتر بنانا اور دو طرفہ امور پر بات چیت کو آگے بڑھانا ہے۔

سفارتی ذرائع کے مطابق طالبان حکومت کے وفد کی قیادت افغانستان کے وزیر دفاع ملا یعقوب کریں گے، جبکہ پاکستانی وفد کی قیادت سینئر سیکیورٹی حکام کے سپرد ہوگی۔ طالبان کی جانب سے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل سے سفر کی اجازت نہ ملنے کے بعد وفد میں تبدیلی کی گئی ہے۔

مذاکرات کی بنیاد طالبان حکومت کی جانب سے کی گئی جنگ بندی کی درخواست پر رکھی گئی ہے، جس کے جواب میں پاکستان نے 15 اکتوبر کی شام 6 بجے سے اگلے 48 گھنٹوں کے لیے عارضی سیز فائر کا اعلان کیا تھا۔

ترجمان دفتر خارجہ کے مطابق پاکستان دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کے خاتمے اور پرامن حل کی کوششوں میں سنجیدہ ہے۔

بیان میں کہا گیا کہ پاکستان افغان طالبان کی درخواست پر عارضی جنگ بندی پر آمادہ ہوا ہے، تاکہ فریقین کو مذاکرات کا موقع میسر آئے اور مسئلے کا پرامن حل تلاش کیا جا سکے۔

طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے بھی سوشل میڈیا پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر جاری بیان میں تصدیق کی کہ افغان فورسز کو جنگ بندی کی مکمل پاسداری کی ہدایت جاری کی گئی ہے، بشرطیکہ دوسری جانب سے کوئی جارحیت نہ کی جائے۔

یہ پیش رفت اس وقت ہوئی ہے جب 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب افغان سرحدی فورسز کی جانب سے پاکستان پر بلااشتعال فائرنگ کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ افغان طالبان کی جانب سے دعویٰ کیا گیا کہ یہ ردعمل پاکستانی فضائی حملوں کے جواب میں تھا۔

پاکستانی سیکیورٹی ذرائع کے مطابق جوابی کارروائی میں درجنوں افغان اہلکار ہلاک ہوئے اور عسکریت پسند گروہوں کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔

پاکستان کی جانب سے کابل پر بارہا زور دیا گیا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) جیسے گروہوں کے لیے محفوظ پناہ گاہ کے طور پر استعمال نہ ہونے دے۔

افغان وزارت دفاع نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ہماری افواج نے پاکستانی فورسز کی سرحدی خلاف ورزیوں کے بعد جوابی کارروائی کی، جو نصف شب ختم ہوئی۔ اگر دوبارہ افغان سرزمین کی خلاف ورزی کی گئی تو بھرپور ردعمل دیا جائے گا۔

دوحہ میں ہونے والے یہ مذاکرات نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کی سمت طے کریں گے بلکہ یہ خطے میں امن، سرحدی سلامتی اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ لائحہ عمل کے امکانات پر بھی اثر انداز ہو سکتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق افغانستان میں طالبان حکومت کی جانب سے سیز فائر کی درخواست اور مذاکرات کی خواہش تعاون پر مبنی پالیسی میں تبدیلی کا عندیہ دے سکتی ہے، تاہم زمینی حقائق اور عسکری سرگرمیوں کی موجودگی کسی بھی معاہدے کو ناپائیدار بنا سکتی ہے۔

اب نگاہیں دوحہ میں ہونے والے ان مذاکرات پر مرکوز ہیں جن سے یہ واضح ہو سکے گا کہ آیا دونوں ممالک اپنے اختلافات کو سفارتی مکالمے کے ذریعے حل کرنے میں سنجیدہ ہیں یا کشیدگی کا سلسلہ بدستور جاری رہے گا۔

Comments are closed.