پی وی ایم سی میں 70 ملین روپے کی بے ضابطگی، سابق سیکرٹری کی بدعنوانی کے خلاف آواز بلند

پی وی ایم سی میں 70 ملین روپے کی بے ضابطگی، سابق سیکرٹری کی بدعنوانی کے خلاف آواز بلند

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

پاکستان ویٹرنری میڈیکل کونسل (پی وی ایم سی) میں گزشتہ سات سالوں کے دوران غیر قانونی رجسٹریشن فیس اور تجدیدی فیسوں کی وصولی کا اسکینڈل سامنے آیا ہے، جس میں تقریباً 70 ملین روپے کی بے ضابطگی کی نشاندہی کی گئی ہے۔ سابق سیکرٹری اور رجسٹرار پی وی ایم سی ڈاکٹر علمدار حسین ملک نے اس معاملے کو اجاگر کرتے ہوئے قانونی اور اخلاقی بنیادوں پر اس پر شفاف تحقیقات کی اپیل کی ہے۔

ڈاکٹر علمدار حسین ملک کے مطابق، جنوری 2013 سے دسمبر 2021 تک پی وی ایم سی نے ویٹرنری گریجویٹس سے رجسٹریشن فیس کے طور پر 10,000 روپے وصول کیے، جو کہ وفاقی حکومت کی طرف سے نوٹیفائی کی گئی 5,000 روپے کی فیس سے دوگنا تھی۔ یہ اقدام پی وی ایم سی ریگولیشنز 2000 اور وفاقی حکومت کے 24 دسمبر 2012 کے ایس آر او (127(KE)/2012) کی صریح خلاف ورزی تھا۔ اس غیر قانونی اقدام کے نتیجے میں تقریباً 7,000 طلبہ سے ناجائز طور پر تقریباً 60 سے 70 ملین روپے وصول کیے گئے، جن میں زیادہ تر محدود وسائل رکھنے والے اور متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے طلبہ شامل تھے۔

ڈاکٹر علمدار حسین ملک نے آڈٹ رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ڈی جی فیڈرل گورنمنٹ آڈٹ نے 2013–14 سے 2017–18 اور 2020–21 سے 2021–22 تک کی آڈٹ رپورٹس میں اس بے ضابطگی کی تصدیق کی۔ ان رپورٹس میں 35.710 ملین روپے کی بے قاعدگی (صرف رجسٹریشن فیس) کا ذکر کیا گیا، اور سفارش کی گئی کہ یہ رقم متاثرہ طلبہ کو واپس کی جائے۔

ڈاکٹر علمدار حسین ملک نے مزید کہا کہ 20 جولائی 2025 کو پی وی ایم سی کی ساٹھویں کونسل میٹنگ میں اس معاملے کو اٹھایا گیا، تاہم بغیر کسی ریکارڈ کی جانچ پڑتال کے پی وی ایم سی نے یہ کہہ کر شکایت کو مسترد کر دیا کہ “کوئی غیر قانونی رجسٹریشن فیس وصول نہیں کی گئی”۔ اس فیصلے نے لاکھوں روپے کی بدعنوانی پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے اور اس سے پی وی ایم سی کے تمام اراکین کی ذمہ داری مزید واضح ہوگئی ہے۔

ڈاکٹر علمدار حسین ملک نے کہا کہ یہ معاملہ صرف مالی بے ضابطگی تک محدود نہیں ہے بلکہ یہ قانون، اخلاقیات اور عوامی اعتماد کا سنگین مسئلہ بن چکا ہے۔ پی وی ایم سی کا فرض ہے کہ وہ ویٹرنری پروفیشنلز کا تحفظ کرے نہ کہ ان کا استحصال۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ متاثرہ طلبہ کے اعتماد کی بحالی کے لیے ریاستی اداروں کو فوری اور شفاف کارروائی کرنی چاہیے۔

انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے اپیل کی کہ وہ اس سنگین معاملے پر ازخود نوٹس لیں اور آزادانہ و شفاف عدالتی انکوائری کروائیں۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ بھی مطالبہ کیا کہ زائد وصول کی گئی فیسیں فوری طور پر متاثرہ طلبہ کو واپس کی جائیں اور ذمہ دار افراد کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے۔

ڈاکٹر علمدار حسین ملک نے پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (PAC) اور سیکرٹری نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ سے بھی مطالبہ کیا کہ وہ اس معاملے کی فوری تحقیقات کر کے متاثرہ طلبہ کو انصاف فراہم کریں اور قومی خزانے کو ہونے والے نقصان کا ازالہ کریں۔

ڈاکٹر علمدار حسین ملک نے اس موقع پر ویٹرنری تعلیمی اداروں کے سربراہان سے بھی اپیل کی کہ وہ اپنے طلبہ کے حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھائیں اور اس قومی مسئلے پر یکجہتی کا مظاہرہ کریں تاکہ اس بدعنوانی کو بے نقاب کیا جا سکے اور متاثرہ گریجویٹس کو ان کا حق دلایا جا سکے۔

واضح رہے کہ یہ اسکینڈل نہ صرف مالی بے ضابطگیوں کا سنگین معاملہ ہے بلکہ یہ پاکستان کی ویٹرنری تعلیم کے معیار اور طلبہ کے اعتماد کو بھی نقصان پہنچانے کا باعث بن رہا ہے۔ ریاستی اداروں کو فوری طور پر اس پر شفاف تحقیقات کرنی چاہیے تاکہ عوامی اعتماد بحال ہو سکے اور متاثرہ طلبہ کو ان کا حق مل سکے ۔

Comments are closed.