اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹیلی کام سیکٹر میں گمراہ کن مارکیٹنگ پر کمپٹیشن کمیشن کا اختیار برقرار، ٹیلی کام کمپنیوں کی درخواستیں مسترد
اسلام آباد
شمشاد مانگٹ
اسلام آباد ہائی کورٹ نے ٹیلی کام کمپنیوں، جن میں جاز، ٹیلی نار، زونگ، یوفون، وارد، پی ٹی سی ایل اور وائی ٹرائب شامل ہیں، کی درخواستیں مسترد کرتے ہوئے فیصلہ دیا ہے کہ کمپیٹیشن کمیشن آف پاکستان کو ٹیلی کام سیکٹر میں بھی گمراہ کن تشہیر اور غیر مسابقتی رویوں کی تحقیقات کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
جسٹس انعام امین منہاس نے تفصیلی فیصلہ جاری کرتے ہوئے قرار دیا کہ کمیشن نے کمپیٹیشن ایکٹ 2010 کے تحت اپنے قانونی اختیارات کے مطابق کارروائی کی۔ عدالت کے مطابق کمیشن کا دائرہ اختیار معیشت کے تمام شعبوں تک پھیلا ہوا ہے، بشمول ٹیلی کمیونیکیشن۔ فیصلہ میں کہا گیا ہے کہ کمپٹیشن کمیشن ، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کے ساتھ بیک وقت اور مربوط انداز میں کام کرتا ہے۔
درخواست گزار کمپنیوں نے کمیشن کے 2013 اور 2014 میں جاری کیے گئے شوکاز نوٹسز کو چیلنج کیا تھا ۔ کمپٹیشن کمیشن نے موبائل کمپنیوں پر پری پیڈ کارڈز پر اضافی “سروس مینٹیننس” یا “ری چارج” فیس وصول کرنے کے الزامات اور شکایات پر اسے اسے گمراہ کن اشتہاری عمل قرار دیتے ہوئے شوکاز نوٹس جاری کیے تھے۔ اسی طرح پی ٹی سی ایل اور وائی ٹرائب کو “ان لِمٹڈ انٹرنیٹ” پیکجز کی گمراہکن مارکیٹنگ پر شوکاز نوٹسز جاری ہوئے تھے جنہیں ان کمپنیون نے عدالت میں چیلنج کیا تھا ۔ ایک علیحدہ درخواست میں پی ٹی سی ایل نے فکسڈ لوکل لوپ سروسز میں مبینہ امتیازی قیمتوں کے الزامات پر شروع کی گئی کمیشن کی انکوائری کو روکنے کی استدعا کی تھی۔
عدالت نے ٹیلی کام کمپنیوں کا یہ مؤقف مسترد کر دیا کہ پی ٹی اے کو ٹیلی کام سیکٹر میں مسابقتی امور پر خصوصی اختیار حاصل ہے۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں قرار دیا کہ “کمپیٹیشن کمیشن کا دائرہ اختیار معیشت کے تمام شعبوں تک پھیلا ہوا ہے، بشمول ٹیلی کمیونیکیشن۔ کمیشن کا کردار صرف ریگولیشن تک محدود نہیں بلکہ اس میں غیر مسابقتی رویوں، اجاری داری کے غلط استعمال، ملی بھگت، اور گمراہ کن مارکیٹنگ جیسے اقدامات کی روک تھام شامل ہے۔
عدالت نے مزید قرار دیا کہ ٹیلی کمیونیکیشن (ری آرگنائزیشن) ایکٹ 1996 اور کمپیٹیشن ایکٹ 2010 دونوں قوانین ’’علیحدہ مگر ایک دوسرے کے تکمیلی دائرہ کار‘‘ رکھتے ہیں۔ پی ٹی اے جہاں تکنیکی اور آپریشنل امور کی نگران ہے، وہیں کمپٹیشن کمیشن کو مارکیٹ میں مقابلے اور گمراہ کن تشہیر سے متعلق معاملات میں بنیادی اختیار حاصل ہے۔
فیصلے میں کہا گیا کہ حتیٰ کہ پی ٹی اے جیسے ریگولیٹری ادارے بھی کمپٹیشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آ سکتے ہیں، کیونکہ ایکٹ کی دفعہ 2(1)(q) کے مطابق “انڈرٹیکنگ” میں کسی بھی سرکاری یا ریگولیٹری ادارے کو شامل کیا گیا ہے۔
عدالت نے درخواستوں کو قبل از وقت قرار دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سی سی پی کے شوکاز نوٹسز ابتدائی نوعیت کے تھے اور کسی حتمی یا نقصان دہ حکم کا درجہ نہیں رکھتے۔ جسٹس منہاس نے فیصلہ میں لکھا کیا کہ درخواست گزاروں کے پاس کمیشن، اس کے کمپیٹیشن اپیلٹ ٹریبونل میں اپیل کا مناسب فورمز ہے۔ مزید لکھا کہ اس ابتدائی مرحلے پر عدالت کی مداخلت ایک قانونی ادارے کو اپنے فرائض کی ادائیگی سے روکنے کے مترادف ہوگی اور کمپیٹیشن ایکٹ 2010 کے مقاصد کو نقصان پہنچائے گی۔
عدالت نے قرار دیا کہ کمپٹیشن کمیشن کو ٹیلی کام سیکٹر میں گمراہ کن مارکیٹنگ اور غیر مسابقتی رویوں کی تحقیقات کرنے کا مکمل اختیار رکھتا ہے، اور اس بنیاد پر تمام سات منسلک درخواستوں کو ناقابلِ سماعت قرار دے کر مسترد کر دیا جاتا ہے۔
Comments are closed.