اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے، یہ صرف جارحیت نہیں جنگی جرم ہے، فلسطینی صدر محمود عباس

اسرائیل نسل کشی کر رہا ہے، یہ صرف جارحیت نہیں جنگی جرم ہے، فلسطینی صدر محمود عباس

دوحہ

فلسطینی صدر محمود عباس نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس سے ویڈیو لنک کے ذریعے خطاب کرتے ہوئے اسرائیل پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل جو کچھ کر رہا ہے وہ صرف جارحیت نہیں بلکہ جنگی جرم اور انسانیت کے خلاف جرم ہے، یہ جرائم پوری دنیا کے سامنے دستاویزی طور پر ریکارڈ ہو رہے ہیں اور یہ المیہ تاریخ اور عالمی ضمیر کے صفحات میں بیسویں اور اکیسویں صدی کے بدترین سانحات میں شمار ہوگا۔ انہوں نے اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی گریٹر اسرائیل کی کال کو مسترد کرتے ہوئے اس کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی اور کہا کہ اس منصوبے کے تحت نہ صرف فلسطینی علاقوں پر قبضہ کیا جا رہا ہے بلکہ خود مختار عرب ریاستوں کی خودمختاری کو بھی چیلنج کیا جا رہا ہے جس میں برادر ملک قطر پر حملہ بھی شامل ہے جسے ہم کھلی جارحیت اور سنگین خلاف ورزی سمجھتے ہیں۔

صدر محمود عباس نے کہا کہ میں آپ سے مخاطب ہوں جب کہ ہمارے فلسطینی عوام گزشتہ دو سال سے غزہ کی پٹی میں مسلسل نسل کشی، تباہی، بھوک اور بے دخلی کا سامنا کر رہے ہیں۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ اب تک دو لاکھ بیس ہزار سے زائد فلسطینی شہید یا زخمی ہو چکے ہیں جن میں زیادہ تر نہتے بچے، خواتین اور بزرگ شامل ہیں۔ غزہ کی صورتحال پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر عباس نے مغربی کنارے میں اسرائیل کی جانب سے آبادکاری کے منصوبوں اور غیر قانونی بستیوں کی توسیع کی بھی مذمت کی اور کہا کہ اسرائیل کی انتہا پسند حکومت E1 بستی منصوبے کے ذریعے مغربی کنارے کو دو حصوں میں تقسیم کر کے مقبوضہ یروشلم کو اس کے گرد و نواح سے کاٹنا چاہتی ہے، جو کہ دو ریاستی حل کے خاتمے کی کھلی کوشش ہے اور بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

صدر عباس نے کہا کہ ہم نے اوسلو معاہدے پر عمل کیا، قومی چارٹر میں ترمیم کی، دہشتگردی اور تشدد کو مسترد کیا، امن کی ثقافت اپنائی اور ایک جدید فلسطینی ریاست کے ادارے قائم کیے تاکہ اسرائیل کے ساتھ امن سے رہ سکیں، لیکن اسرائیل نے معاہدوں کی مسلسل خلاف ورزی کی اور انہیں ناکام بنایا۔ انہوں نے اقوام متحدہ کی بے بسی پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ ایک ہزار سے زائد قراردادیں منظور ہوئیں لیکن ایک بھی نافذ نہیں ہوئی، دنیا نے ہمارے مصائب دیکھے لیکن مسئلے کا کوئی حل سامنے نہیں آیا۔

صدر محمود عباس نے سات اکتوبر کو حماس کے حملے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنانا اور یرغمال بنانا فلسطینی عوام یا ان کی آزادی کی جدوجہد کی نمائندگی نہیں کرتا۔ انہوں نے واضح کیا کہ حماس کو حکمرانی میں کوئی کردار نہیں ملے گا اور ریاست سازی کے عمل میں شامل ہونے کے لیے تمام گروہوں کو اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنا ہوں گے۔ ہم ایک ریاست، ایک قانون اور ایک سکیورٹی فورس پر یقین رکھتے ہیں، ہم مسلح ریاست نہیں چاہتے۔

انہوں نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ فلسطینی کاز کے ساتھ یکجہتی کو یہود دشمنی کے ساتھ نہ ملایا جائے کیونکہ یہ ہمارے اصولوں کے خلاف ہے۔ فلسطینی صدر نے اقوام متحدہ اور بین الاقوامی اداروں سے مطالبہ کیا کہ غزہ میں جنگ کو فوری طور پر روکا جائے، انسانی امداد کو بلا رکاوٹ داخل ہونے دیا جائے، بھوک کو بطور ہتھیار استعمال کرنے کی پالیسی بند کی جائے اور تمام یرغمالیوں و قیدیوں کی رہائی عمل میں لائی جائے۔ انہوں نے کہا کہ اسرائیل کو غزہ سے مکمل طور پر نکلنا ہوگا اور بے دخلی، بستیوں، آبادکاروں کی دہشت گردی، زمینوں اور جائیداد کی چوری، اور مقدس مقامات پر حملوں کو فوری بند کیا جانا چاہیے۔

محمود عباس نے تجویز دی کہ غزہ میں ایک عبوری انتظامیہ قائم کی جائے جس کی سربراہی فلسطینی حکومت کا وزیر کرے اور اسے عرب، عالمی اور اقوام متحدہ کی حمایت حاصل ہو، تاکہ غزہ کے شہریوں کو تحفظ دیا جا سکے اور بعد ازاں مغربی کنارے کے ساتھ مکمل رابطہ قائم ہو۔ انہوں نے زور دیا کہ غزہ کے رہائشیوں کو ان کی زمین پر رہنے کی ضمانت دی جائے، دونوں علاقوں کی تعمیر نو کا فوری آغاز کیا جائے اور جنگ کے خاتمے کے ایک سال کے اندر صدارتی و پارلیمانی انتخابات منعقد کیے جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ ایک کمیٹی عبوری آئین کا مسودہ تیار کر رہی ہے۔

صدر محمود عباس نے عالمی برادری سے فلسطین کی حمایت اور اصلاحات کے لیے مدد فراہم کرنے کی اپیل کی اور کہا کہ فلسطین ٹرمپ، سعودی عرب، فرانس، اقوام متحدہ اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ امن منصوبے پر عمل کے لیے تیار ہے جسے 22 ستمبر کی بین الاقوامی کانفرنس میں منظور کیا گیا تھا۔ آخر میں انہوں نے کہا کہ چاہے ہمارے زخم کتنے بھی گہرے ہوں اور مصائب کتنے بھی طویل ہوں، یہ ہمارے جینے اور بقا کے عزم کو شکست نہیں دے سکتے۔ آزادی کی صبح ضرور طلوع ہوگی اور فلسطین کا پرچم ہمارے آسمان پر وقار اور ثابت قدمی کی علامت کے طور پر بلند ہوگا، یروشلم ہمارا دارالحکومت ہے اور ہم اپنا وطن ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔

Comments are closed.