غزہ میں اسرائیلی بمباری ، 61 افراد شہید ، انسانی بحران شدید تر، شہری پناہ کی تلاش میں بے یار و مددگار

غزہ میں اسرائیلی بمباری ، 61 افراد شہید ، انسانی بحران شدید تر، شہری پناہ کی تلاش میں بے یار و مددگار

دوحہ

غزہ شہر میں اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں شدید انسانی بحران پیدا ہو چکا ہے، جہاں درجنوں فلسطینی روزانہ شہید ہو رہے ہیں، جب کہ ہزاروں افراد مسلسل نقل مکانی پر مجبور ہیں لیکن اُن کے لیے نہ کوئی محفوظ پناہ گاہ میسر ہے اور نہ ہی بنیادی سہولیات۔ قطری نشریاتی ادارے الجزیرہ کے مطابق آج فجر کے بعد سے اب تک اسرائیلی حملوں میں کم از کم 61 افراد شہید ہو چکے ہیں، جبکہ حماس کی جانب سے امریکا کے جنگ بندی منصوبے کو قبول کرنے کے امکانات تاحال غیر یقینی صورتحال کا شکار ہیں۔

صبح کے وقت اسرائیلی فضائیہ نے الزیتون محلے کے ایک اسکول کو نشانہ بنایا جو بے گھر افراد کی پناہ گاہ میں تبدیل ہو چکا تھا۔ ریسکیو ٹیمیں جب جائے وقوعہ پر متاثرین کو ملبے سے نکالنے میں مصروف تھیں تو اسرائیلی افواج نے دوبارہ اسی مقام کو نشانہ بنایا۔ العربی اسپتال کے ذرائع کے مطابق اس حملے میں 6 افراد شہید اور متعدد زخمی ہوئے۔

دیگر حملوں میں دارج محلے کے ایک گھر پر بمباری سے کم از کم 7 افراد شہید ہوئے، جبکہ زیتون کے جنوبی حصے میں ایک بچہ بھی جان کی بازی ہار گیا۔ بمباری نے غزہ شہر کے شہری مرکز کو ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔ رہائشی عمارتیں، اسکول اور سڑکیں تباہ ہو چکی ہیں، جبکہ روزانہ درجنوں جنازے اٹھائے جا رہے ہیں۔ شہریوں کی بڑی تعداد جنوبی علاقوں کی طرف فرار ہو رہی ہے لیکن ان پر راستے میں بھی حملے ہو رہے ہیں۔

بدھ کے روز اسرائیلی فوج نے الراشد اسٹریٹ کو بند کر دیا، جو غزہ کے مختلف علاقوں کو آپس میں ملانے والا ایک اہم راستہ تھا۔ مغربی غزہ کے الشفا اسپتال کے صحن میں 11 نامعلوم افراد کی لاشوں کو اجتماعی قبر میں دفنایا گیا۔ یہ اسپتال اس وقت محاصرے کا شکار علاقے کا سب سے بڑا طبی مرکز ہے اور مسلسل حملوں کی زد میں ہے۔

ایمرجنسی ذرائع کے مطابق وسطی غزہ کے نصیرات اور بریج کیمپوں میں 2 گھروں پر فضائی حملوں میں مزید 3 شہری شہید ہوئے۔ الجزیرہ کے نامہ نگار ہانی محمود نے نصیرات سے رپورٹ کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کا ماحول ناقابل برداشت ہے، لوگ انتہائی غیر مناسب، گنجان آباد اور غیر محفوظ علاقوں میں منتقل ہو رہے ہیں، کچھ خاندانوں نے ساحل سمندر پر خیمے لگا لیے ہیں۔

ایک متاثرہ شہری محمد الترکمانی، جو اپنی بیوی اور بچوں کے ساتھ غزہ شہر سے فرار ہو کر سمندر کنارے خیمے میں پناہ لیے ہوئے ہیں، نے بتایا کہ جیسے جیسے سردیاں قریب آ رہی ہیں، ہمیں خیمہ پھٹنے یا سیلاب میں بہہ جانے کا خطرہ ہے۔ میں نہیں جانتا ہم کیسے زندہ رہیں گے، میں صرف اپنے بچوں کو گرمی اور سردی سے بچانا چاہتا ہوں۔

دریں اثنا، اسرائیل کی سخت ناکہ بندی کو توڑنے کے لیے گلوبل صمود فلوٹیلا نامی بین الاقوامی امدادی قافلہ خطرناک سمندری حدود میں داخل ہو چکا ہے۔ منتظمین کے مطابق وہ اس وقت ’ہائی رسک زون‘ میں ہیں جو غزہ پٹی سے تقریباً 150 میل دور ہے، تاہم اب تک اسرائیل کی جانب سے ان کے خلاف کسی ممکنہ کارروائی کے خدشات بدستور موجود ہیں۔

Comments are closed.