جسٹس منصور کا چیف جسٹس کو خط ، عدلیہ میں اتحاد کی ضرورت پر زور، فیصلوں کی آزادی پر اثرات کا خدشہ

جسٹس منصور کا چیف جسٹس کو خط ، عدلیہ میں اتحاد کی ضرورت پر زور، فیصلوں کی آزادی پر اثرات کا خدشہ

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے 27 ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو لکھے خط میں کہا ہے کہ عدلیہ متحد نہ ہوئی تو آزادی اور فیصلے متاثر ہوں گے، جبکہ تاریخ خاموش رہنے والوں کو نہیں، آئین کی سربلندی کے لیےکھڑے ہونے والوں کو یاد رکھتی ہے۔

ذرائع کے مطابق 27ویں آئینی ترمیم کے معاملے پر سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس پاکستان یحییٰ آفریدی کو خط لکھ دیا، جس میں فوری اقدام کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی کو لکھے خط میں کہا ہے کہ بطور عدلیہ سربراہ فوری طور پر ایگزیکٹو سے رابطہ کریں اور واضح کریں کہ آئینی عدالتوں کے ججز سے مشاورت کے بغیر ترمیم نہیں ہو سکتی، جبکہ خط میں کہا گیا ہے کہ آئینی عدالتوں کے ججز پر مشتمل ایک کنونشن بھی بلایا جا سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے چیف جسٹس کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا کہ آپ اس ادارے کے صرف ایڈمنسٹریٹر نہیں بلکہ گارڈین بھی ہیں اور یہ لمحہ آپ سے لیڈرشپ دکھانے کا تقاضا کرتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اٹھایا کہ جب 26ویں آئینی ترمیم پر سوالات اب بھی باقی ہیں تو نئی آئینی ترمیم مناسب نہیں۔

خط میں کہا گیا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی دلیل کے طور پر زیر التوا مقدمات کا جواز دیا جا رہا ہے، حالانکہ زیادہ تر مقدمات ضلعی عدلیہ کی سطح پر ہیں، سپریم کورٹ کی سطح پر نہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے لکھا کہ امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ، جاپان اور برطانیہ میں بھی ایک ہی سپریم کورٹ موجود ہے۔

انہوں نے کہا کہ میثاقِ جمہوریت میں آئینی عدالت کا ذکر محدود مدت، صرف 6 سال کے لیے کیا گیا تھا اور وہ بھی ایک خاص سیاسی پس منظر کے تحت۔

جسٹس منصور نے خط میں چیف جسٹس سے تمام آئینی عدالتوں کے جج صاحبان کا اجلاس بلانے کی سفارش کرتے ہوئے کہا کہ تاریخ خاموش رہنے والوں کو نہیں، آئین کی سربلندی کے لیےکھڑے ہونے والوں کو یاد رکھتی ہے، عدلیہ متحد نہ ہوئی تو آزادی اور فیصلے متاثر ہوں گے۔

اس سے قبل مجوزہ 27ویں آئینی ترمیم پر سینئر وکلاء اور ریٹائرڈ ججز نے بھی چیف جسٹس کو خط ارسال کیا تھا، جس میں فل کورٹ میٹنگ بلانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

Comments are closed.