جسٹس محسن اختر کیانی کا بلدیاتی انتخابات نہ ہونے اور اداروں کی ناکامی پر سوالات

جسٹس محسن اختر کیانی کا بلدیاتی انتخابات نہ ہونے اور اداروں کی ناکامی پر سوالات ، اسلام آباد ہائی کورٹ کی گورننس پر شدید تنقید

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ میں سی ڈی اے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات نہ ہونے کے معاملے پر جسٹس محسن اختر کیانی نے حکومت اور متعلقہ اداروں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ کیس کے دوران انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق تمام اختیارات سی ڈی اے سے ایم سی آئی کو منتقل ہونے تھے، تاہم سی ڈی اے بورڈ وہ کام کر رہا ہے جو ایک لوکل گورنمنٹ ادارے کو کرنا چاہیے تھا۔

جسٹس کیانی کا کہنا تھا کہ آئین کے مطابق عوامی نمائندے اپنے اختیارات استعمال کریں گے اور ہر ایک روپے کے استعمال کا اختیار بھی لوکل گورنمنٹ کا ہے، مگر بدقسمتی سے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات پانچ سال سے نہیں ہو سکے۔ “ہائی کورٹ نے چار فیصلے دیے اور سپریم کورٹ نے ایک فیصلہ دیا، مگر حکومت نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیے۔”

انہوں نے مزید کہا کہ “مجھے پاکستان کا کوئی ایک ادارہ بتائیں جو اپنا کام ہینڈل کرنے کے قابل ہو۔” جسٹس کیانی نے عدالتوں کی حالت پر بھی گہری تشویش ظاہر کی اور کہا کہ “کیا کسی کو یہ احساس ہے کہ 25 کروڑ عوام کس طرح زندگی گزار رہے ہیں؟” ان کا کہنا تھا کہ موجودہ گورننس مسائل نے پورے نظام کو مفلوج کر دیا ہے اور عوامی نمائندوں کے بجائے عدالتیں وہ کام کر رہی ہیں جو ان کے نہیں ہیں۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے اس بات پر زور دیا کہ اگر نظام کسی کو سوٹ کرتا ہو تو اسے چلا دیا جاتا ہے، لیکن اگر قانون کسی کو سوٹ نہ کرے تو وہ ایک طرف رکھ دیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “اب چونکہ کسی کو سوٹ نہیں کرتا، اس لیے پانچ سال تک بلدیاتی انتخابات نہیں ہونے دیے گئے۔ کیا اسلام آباد کے لوگوں کا یہ حق نہیں کہ ان کے منتخب نمائندے ان کے فیصلے کریں؟”

انہوں نے مزید کہا کہ “جو کچھ ملک میں ہو رہا ہے اس پر دعا ہی کی جا سکتی ہے، کیونکہ ہر کسی کو اپنا کام کرنا چاہیے۔ غلطیاں سب سے ہوتی ہیں، لیکن بدنیتی نہیں ہونی چاہیے۔”

یہ ریمارکس اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات اور پاکستان کے دیگر اداروں کی کارکردگی کے حوالے سے سنگین سوالات اٹھاتے ہیں اور گورننس کی کمزوریوں کو بے نقاب کرتے ہیں۔ جسٹس کیانی کا کہنا ہے کہ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو عوامی اعتماد مزید ٹوٹ سکتا ہے اور عدلیہ سمیت تمام اداروں کی کارکردگی پر سنگین اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔

پاکستان میں اس وقت بلدیاتی انتخابات کی عدم موجودگی ایک ایسا معاملہ بن چکا ہے جس پر حکومت، عدالتوں اور عوام میں گہری بے چینی پائی جاتی ہے۔ حکومت کی جانب سے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کے التوا کے حوالے سے کوئی واضح موقف سامنے نہیں آیا، جس کے نتیجے میں عدالتیں ہی اس معاملے پر فیصلہ کرنے کی مجبوری میں نظر آتی ہیں۔

یہ صورتحال پاکستان کے گورننس ماڈل کی کمزوریوں کی عکاسی کرتی ہے، جہاں قانونی، سیاسی اور ادارہ جاتی سطح پر بہت سے مسائل موجود ہیں۔

Comments are closed.