کارگل جنگ کے غازی رومیل اکرم کا فوج سے اے این ایف تک کا شاندار سفر

تحریر: عباس ملک

Abbas Malik

میرا آج کا کالم ایک ایسی شخصیت کے ماضی کے اس کردار پر ہے جو آج بھی سن کر ایمان تازہ ہو جاتا ہے اور وطن سے محبت کرنے والے آشفتہ سروں کے جذبات امڈ آتے ہیں۔ میرا صحافت میں 34 سال سے زائد کا تجربہ ہو چکا ہے مگر میں نے اس دوران شخصیتوں سے ملاقاتوں پر توجہ نہیں دی نہ اسے ضروری سمجھا کیونکہ میری طبعیت اور مزاج میں شائد درویشی کا عنصر ہے یا ملنگی لہر ہے کہ میں سفید پوشی اور تنہائی میں زندگی کو جینا بہتر سمجھتا ہوں، لیکن مجھ جیسا احقر العباد بھی دل رکھتا ہے اور اس دل میں اکثر ایسی شخصیات کا تاثر بھر آتا ہے جن سے ملنے کا اشتیاق ہمیشہ امڈ امڈ کر آپ کو کسی خاص سے مجبور کرتا ہے۔ میرے کالم کا موضوع آج کی شخصیت ایک معروف پولیس افیسر ۔۔اور پھر ڈائریکٹر اے این ایف قابل قدر کیپٹن ( ر) رومیل اکرم ہیں، اور آپکو میری ان سے ملنے کی وجہ ، شوق اور ذوق کی انتہاء کا راز اور ان کی شخصیت کا امتزاج نمایاں ملے گا۔

kargil war
چھ سو بھارتی فوجیوں کا تنہا مقابلہ کرکے انہیں بھاگنے پر مجبور کرنے والا پاک فوج کا یہ شیر دل کیپٹن جو اب اینٹی نار کوٹیکس فورس (اے این ایف) ڈائیریکٹر کی حیثئیت سے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں ،انکے معرکہ کی داستان سن کر آپ کا سر فخر سے بلند ہوجائے گا۔کارگل کی جنگ میں پاکستانی فوج کے شیر دل جوانوں نے ہزاروں کی تعداد میں بھارتی سورماوں کو ابدی نیند سلاکر عسکری تاریخ کے انمٹ نقوش رقم کئے تھے۔ ان میں جواں سال کیپٹن رومیل اکرم بھی تھے جنہوں نے 1999ءکی کارگل کی ایک ایک چھوٹی مگر اہم ترین پوسٹ پر اپنے بائیس جوانوں کے ساتھ دشمن کو ناکوں چنے چبھوا دئے تھے۔کیپٹن رومیل اکرم کا بھارتی فوج کی ایک بٹالین کے ساتھ سخت ترین معرکہ ہوا ہے ۔اللہ تعالٰی نے انہیں شہادت کی جگہ غازی کا رتبہ عطا فرمایا جبکہ زخموں سے چور ہونے والے کیپٹن رومیل اکرم پر وہ وقت بھی آیا تھا جب وہ بھاری پتھر کی اوٹ میں خون میں لت پت کہہ رہے تھے ” اے اللہ میں شہید کیوں نہیں ہورہا ،میری جان کیوں نہیں نکل رہی“ لیکن اللہ کو اپنے اس شیر کو ابھی زندہ رہ کر اسلام کے دشمنوں کے ناپاک قدموں کو پاک سرزمین سے دور بھگانا تھا ۔کیپٹن رومیل اکرم کارگل کی جنگ کے وہ حقیقی ہیرو ہیں جو غازی بن کر لوٹے اور پھر ملک کے مختلف آضلاع میں مختلف عہدوں پر اپنی خدمات کے ان منٹ نقوش چھوڑے ہیں اور آج بھی محکمہ پولیس میں نمایاں خدمات سر انجام دینے کے بعد اینٹی نارکوٹکس فورس میں ڈائریکٹر کے عہدے پر فرائض سر انجام دے رہے ہیں ۔فوج سے پولیس اور اب اے این ایف تک انکی زندگی کا یہ سفر کیسے رونما ہوا ،کارگل کے محاذ پر انہوں نے کیا معرکہ انجام دیا کہ آج تک پاک فوج میں انکی بہادری کی مثالیں دی جاتی ہیں اور دشمن پاک فوج کے اس کپتان کو یاد کرکے اپنے زخم تازہ کرتے ہیں ۔آپ سب کو بھی اس بارے لازمی جاننا چاہئے کہ بہادری اور فرض شناسی دراصل ہوتی کیا ہے۔

kargil war 1999
تذکرہ کچھ یوں ہے ، داستان ایمانی کچھ ایسی ہے کہ اس روز کیپٹن رومیل اکرم اپنے بینکر سے باہر پہاڑوں میں دشمن کی نقل و حرکت کا جائزہ لے رہے تھے کہ آناً فاناً دشمن نے بھاری توپ خانہ سے فائر کھول دیا جس کے نتیجہ مین انکے چھ ساتھی شہید اور باقی زخمی ہوگئے۔ان کی گنیں خاموش ہوگئیں کیونکہ گنوں پر بیٹھے مجاہد شہاد ت کے رتبوں پر فائز ہوچکے تھے۔کپٹن رومیل اکرم نے اسلحہ کا جائزہ لیا جو مسلسل استعمال ہونے کے بعد اب صفا¾ی کا متقاضی تھا ۔کیپٹن رومیل اکرم نے غور کیا کہ دوسری جانب کم و بیش چھ سو کے قریب دشمن جارحانہ طور پر آگے بڑھتا چلا آرہا تھا ۔ان میں بھارتی فوج کے خطرناک سنائپرز بھی موجود تھے جو تاک تاک کر پاکستانی فوج کی پوسٹ پر فائر کررہے تھے اور انکی گولیوں نے کئی جوانوں کے سینے چاٹ لئے تھے۔کیپٹن رومیل اکرم کی نگاہ اس دوران راکٹ لانچر پر پڑی۔راکٹ لانچر چلانے والا سپاہی شہید ہوچکا تھا ۔انہوں نے ایک بڑے پتھر کی آڑ لیکر جب پہلا راکٹ چلایا تو دشمن کے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے۔وہ پتھروں کی آڑ میں دبک گئے لیکن وہ اندھا دھند فائر مارتے رہے۔کیپٹن رومیل اکرم نے ابھی چند راکٹ ہی فائر کئے تھے کہ بھارتی فوجیوں میں کھلبلی مچ گئی۔

kargil war images
اس اثنا میں ایک بھارتی سنائپر نے ان پر فائر کھول دیا ،گولی پتھر پر لگی اور پتھر کا ٹکڑا برق کی رفتار سے اڑ کر انکے سر پر لگااور خون کے فوارے ابل پڑے۔وہ پتھر کے پیچھے لیٹ گئے اور چند منٹ بعد دوسرے پتھر کے پیچھے گئے اور دوبارہ راکٹ فائر کیا ۔ان کی آرپی جی سے راکٹ کیا نکلا دشمن کی اگلی صفوں میں ریکی کرنے والوں پر قیامت ٹوٹ پڑی۔اس لمحہ ایک بھارتی سنائپر نے پھرفائر مارا ۔اس بار دشمن کی گولی کیپٹن رومیل اکرم کے ہونٹوں کو چیرتی ہوئی بائیں جانب سے آنکھ سے ایک انچ پرے جبڑے کو پھاڑتی گزر گئی ،وہ نیچے گر گئے ۔راکٹ لانچر ابھی تک انکے ہاتھ میں تھا۔ان پر نیم بے ہوشی کا غلبہ ہوا اور انہیں یقین ہوگیا کہ ان کی ازلی آرزووں کا وقت پورا ہونے والا ہے۔خون زاروقطار بہہ رہا تھا ۔درد کی شدید ترین لہر نے ان کا دل جکڑ لیا تھا ۔بولے” اے اللہ میں شہید کیوں نہیں ہورہا ،میری جان کیوں نہیں نکل رہی“اس لمحہ ان کے کانوں میں انکے سی او کی آواز پڑی۔”رومیل اور
کیپٹن رومیل نےفورا آنکھیں کھولیں۔ ،کچھ فاصلے پر بینکر تھا ۔وہ رینگتے ہوئے بینکر میں گئے۔دشمن متواتر فائر کھولے جارہا تھا ۔ انہوں نے فیلڈفرسٹ ایڈ سے ڈریسنگ کی تو ان کا خون بہنا رک گیا لیکن ایک آنکھ سے دیکھنا مشکل ہورہا تھا۔ جوانوں نے چاہا کہ وہ رک جائیں اور آگے نہ بڑھیں ۔سی او نے انہیں ہدایت کی کہ آگے بڑھ کر ابھی فائر نہ کھولنا ،کمک پہنچ لینے دو۔
کیپٹن رومیل اکرم بولے” دشمن اتنا وقت نہیں دے گا سر،جب تک جان ہے دشمن کو معلوم رہنا چاہئے کہ پوسٹ خالی نہیں ہے ۔اللہ نے چاہا تو میں انکو اب مزید آگے نہیں بڑھنے دوں گا “

kargil war heroes
یہ بھی پاک فوج کے افسروں کی شان ہے کہ وہ اپنے جونئیرز کے ساتھ اگلے مورچوں پر موجود ہوتے ہیں۔پاک فوج کے سی اوعزم و شجاعت کے کھیل میں بھارتی فوجی افسروں کی طرح نہیں ہوتے جو انہیں تنہا چھوڑ جاتے ہیں ۔پاک فوج کے افسر چھوٹی سی چوٹی پوسٹ پر بھی موجود ہوتے ہیں ۔
کیپٹن رومیل اکرم کا چہرہ خون سے لت پت تھا۔ ۔انہوں نے دوبارہ اپنی پوزیشن لی اور پھر جگہیں بدل بدل کر دشمن پر اس تواتر سے راکٹ مارے کہ دشمن کا توپ خانہ خاموش ہوگیا ۔سنائپر بھاگ اٹھے اور ان کے آگے بڑھتے ہوئے قدم پتھروں اور کھائیوں میں انکے ساتھیوں کی لاشوں سے ٹکراتے رہے ،وہ بھاگتے ہوئے اپنے ساتھیوں کو روندتے رہے لیکن کیپٹن رومیل اکرم کے لانچر سے نکلنے والے راکٹ پہاڑوں کو کرچیوں کی طرح اڑا دیتے جو بکھتیں تو ان کی زد میں آنے والے دشمن خون میں نہا جاتے۔ایک راکٹ لانچر نے ان کے بھاری توپ خانے اور سنائپرز کو مٹی چاٹنے پر مجبور کردیا تھا ۔
کیپٹن رومیل اکرم کوشدید ترین نازک حالت میں واپس لایا گیا۔انکے چہرے پر گولی کا وہ گہرا نشان آج بھی واضح ہے،جسے وہ پیار سے سہلاتے ہوئے کہتے ہیں کہ میرے جسم کا سب سے خوبصورت ترین حصہ یہ ہے۔بات لمبی ہو گی۔

kargil war martyrs
کیپٹن رومیل اکرم نے فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد سول سروس کا امتحان دیا اور پولیس میں بھرتی ہوگئے ۔وہ اے آئی جی پولیس بھی رہے ، سپیشل برانچ میں ایس ایس پی کے عہدے پر بھی اپنی قومی ذمہ داریاں بھی سر انجام دیں بطور ڈی پی اوز بھی کام کیا اسلام اباد میں سیف سٹی میں بھی نمایاں خدمات سر انجام دیں ۔۔۔۔۔،فوج میں انکی بہادری کے قصے عام ہیں تو پولیس بھی ان کی فرض شناسی پر نازکرتی ہے۔ان کا قومی و ملّی جذبہ ابھی تک جواں ہے۔ اس وقت کیپٹن (ر) رومیل اکرم اے این ایف میں بطور ڈائریکٹر اپنے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔ رومیل اکرم جیسے ہیروز ہمارا فخر ہیں ، ان کی بدولت آج پاک سرزمین کا نام دنیا میں سربلند ہے ،۔۔۔۔۔۔۔ اے این ایف کی میڈیا ترجمان اپنے افسران بالا کی ہدائیت کی روشنی میں بطور ترجمان میڈیا اور اے این ایف کے درمیان کوارڈینیشن کے لیے کوشاں رہنے والی کنول نور کے توسط سے جب میری ملاقات کیپٹن صاحب سے ہوی تو وطن کے اس محافظ نےبہت عزت دی رسمی علیک سلیک کے بعد گفتگو کا سلسلہ چل پڑا ۔۔کیپٹن صاحب گفتگو کر رہے تھے تو میں سوچ رہا تھا کہ کیپٹن رومیل اکرم واقعی قابل فخر کارکردگی اور ایمانداری حب الوطنی ہمدردی اور ایثار میں ایک تاریخ کا درجہ رکھنے والے ایک عظیم انسان دوست ہیں۔۔وہ باتیں بھی کر رہے تھے دفتری کام بھی چل رہا تھا۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ باقی چند دیگر شخصیات کی طرح کیپٹن صاحب بھی فرائض کی بجاوری کے لیے مہارت اور ذہانت کا بہترین استعمال کرنا جانتے ہیں اور اپنے اہداف کے حصول کے لیے پر اعتماد انداز میں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں یہی ان کی صلاحیتوں کی بہترین دلیل ہے بہرحال کیپٹن صاحب جیسی ایک بہترین شخصئیت کے ساتھ جو وقت اور لمحات میں نے گزارے وہ میری زندگی کا قیمتی سرمایہ ہیں جنہیں کسی صورت فراموش نہیں کیا جا سکتا ایک بہترین فوجی ہونے کے ساتھ ساتھ اور ایک اچھے پولیس افیسر ہونے کے ساتھ ساتھ با کمال علم و بصیرت کے بھی مالک ہیں میں سمجھتا ہوں کہ کیپٹن صاحب کی شخصیت میرے جیسے ایک چھوٹے سے لکھاری کے لیے تن اور درخت کی حیثیت رکھتی ہے بحر حال میں سمجھتا ہوں کہ یہ وطن کی سرحدوں کے ان عظیم محافظوں نے وہ قرض بھی ادا کئے ہیں جو ان پر واجب نہ تھے۔ میری دعا ہے کہ اللہ پاک محترم کیپٹن (ر) رومیل اکرم جیسے بیٹے ہر ماں کے نصیب میں لکھ دے تو پاکستان دنیا کا ناقابل تسخیر قوت والا ملک بن جاۓ گا۔شکریہ

Comments are closed.