انتخابات نہیں، نوٹیفکیشن ہی واحد راستہ ہے

محاسبہ
ناصر جمال

گلی، گلی یوں محبت کے خواب بیچوں گا
میں رکھ کے ریڑھی پہ تازہ گلاب بیچوں گا
رہی جو زندگی میری تو شہرِ ظُلمت میں
چراغ بیچوں گا اور بے حساب بیچوں گا
(جبار واصف)
’’نوجوان‘‘ سینئر صحافی الیاس چوہدری کا کہنا ہے کہ الیکشن سر پر آگئے ہیں۔ تحریک انصاف والے باہر نکلتے ہیں تو پولیس پکڑ لیتی ہے۔ (ن) لیگ والے نکلتے ہیں تو عوام پکڑ لیتی ہے۔
ملک میں شرم و حیا سمیت ہر قسم کا پردہ، ختم ہوچکا ہے۔ ریاستی ادارے تو اس میدان میں ناقابل یقین اور ناقابل شکست ریکارڈز بنا رہے ہیں۔ ملک میں’’ہلاکو راج‘‘ نافذ ہے۔ کسی کو آئین، قانون، ضابطے، عدالت، ججز حتیٰ کہ عوام کا بھی خوف نہیں ہے۔ بس بادشاہ سلامت کا حُکم بجا لانا ہے۔ انسانیت، روایت، دین گیا بھاڑ میں، بس نوکری بچانی ہے۔ لوٹ مار، جاری رہنی چاہئے۔
ن لیگ، پی۔ ڈی۔ ایم اور پیپلز پارٹی کے مخالفین کے کاغذات جیسے تھوک کے حساب سے مسترد ہورہے ہیں اور اُس پر تائید اور تجویز کندگان کو جیسے نشانِ عبرت بنایا جارہا ہے۔ وہ بے مثال ہے۔
قاضی القُضا، ایک بار پھر غلط نہیں، مکمل غلط ثابت ہوئے ہیں۔ جب وقت قیام آیا۔ وہ چھٹیوں پر سجدے میں چلے گئے۔
تحریک انصاف، انتظامیہ سے ریٹرننگ آفیسرز کے خلاف سو فیصد درست عدالت گئی تھی۔ پورے ملک کی انتظامیہ اور ادارے سب کچھ روند کر، بس ’’ٹارگٹ‘‘ حاصل کرنے پر لگی ہوئی ہے۔
مجھے تو، اس بات کی سمجھ نہیں آرہی کہ جس نے انتخاب میں کھڑا ہونا ہے۔ آج اکیسویں صدی میں، اس کو تجویز اور تائید کنندہ کی کیوں ضرورت ہے۔ انتخابی کاغذات تو ’’آن لائن‘‘ جمع ہو جانے چاہئیں۔ جو کچھ ایڈمنسٹریٹو سروس اور پروانشنل مینجمنٹ سروسز والے کررہے ہیں۔ یہ ملک کا سیاہ ترین باب ہے۔ پی۔ ایس۔ پی نے تو یہ سب کچھ ہمیشہ ہی کیا ہے۔ اتنی اندھیر نگری ہے کہ الحفیظ، الامانایوب خان، یحیحی ،ضیاء الحق، مشرف، کیانی اور باجوہ بھی اب تو معصوم دکھائی دیتے ہیں۔
’’اس پر یہ بھی کہا جارہا ہے کہ سوشل میڈیا پر ہیجان، مایوسی اور افراتفری کا ماحول پیدا کرکے،جھوٹی خبروں کے ذریعے یہ تاثر دیا جارہا ہے کہ جیسے ریاست اپنا وجود کھوتی جارہی ہے۔‘‘
پوچھا ہی تھا کہ لوگ یہ سب کچھ کیوں نہ پوچھیں۔ 54 سال پہلے بھی ریاست نے انہی حالات میں اپنا آدھا نہیں، آدھے سے زیادہ وجود ہی کھو دیا تھا۔ جہاں دنیا کا انوکھا واقعہ ہوا۔ اکثریت، اقلیت سے الگ ہوگئی۔ ایسے ہی حالات تھے۔ ریاست پر قابض لوگ، عوام کے نمائندوں کو اختیار نہیں دینا چاہتےتھے۔ ملک دولخت ہوگیا۔انہوں نے انتخابات کے بعد ہٹ دھرمی دکھائی۔آج والے یہ سب کچھ انتخابات سے پہلے کر رہے ہیں کیونکہ ان کو نتائج کا پتہ ہے۔اسٹیبلشمنٹ کی آج بھی وہی سوچ ہے۔جو مشرقی پاکستان کی تقسیم کے وقت تھی۔اس وقت بھی کہا گیا تھا ہمیں بنگالی نہیں سفید زمین چاہیے۔آج بھی ایسی ہی آوازیں آرہی ہیں۔اس وقت پیپلز پارٹی جہاں پر کھڑی تھی،آج مسلم لیگ ن اور مولانا فضل الرحمن پوری پی ڈی ایم سمیت وہاں پر کھڑے ہیں۔
آج حالات، پہلے سے بھی زیادہ خراب ہیں۔صرف عقل کے اندھوں کو نظر نہیں آرہے۔ آپ نیا بنگلہ دیش ماڈل یہاں پر لیکر آنا چاہتے ہیں۔ فرق صرف یہ ہے کہ آپ اب حسینہ واجد والا ماڈل چاہتے ہیں۔
اصل سوال یہ ہے کہ آپ نے تاریخ، وقت، تجربات سے کیا سیکھا۔ آپ سب لوگ عقلمند ہیں۔ اس ملک کے 25 کروڑ لوگ بے وقوف ہیں۔ یہ آپ لوگوں کے ہی تجربات تو ہیں۔ جس کے باعث، پوٹینشل سے بھرا، یہ ملک، بھکاریوں سے بھی بدتر ہوگیا ہے۔ جہاں لوگ زندگی بسر نہیں کررہے۔ بلکہ آپکے اشاروں پر گذار رہے ہیں۔ دعائیں تو اس عوام کی قبول ہوتی ہی نہیں تھیں۔ اب تو بددعائیں، دھاہیاں بھی رائیگاں ہیں۔ لگتا ہے۔ کالے ڈالے سے اب اصل فرشتے بھی ڈرتے ہیں۔
اہل قلم کو شکر کرنا چاہئے کہ آج سوشل میڈیا ہے۔ وگرنہ یہ سب تو گھٹن سے ہی مرجاتے۔
آسمانوں پر بیٹھے۔ فیض، فراز، جالب، منیر نیازی اور دوسرے اہل ادب، شکرانے کے نفل پڑھ رہے ہونگے کہ اس گندےدور اور ہم جیسے بے حس لوگوں کے دور میں نہیں تھے۔ احمد فراز نے تو لندن اے۔ پی۔ سی میں اپنے شہرہ آفاق نظم ’’محاصرہ‘‘ پڑھنے پر سب بزرگوں سے دست بدست معافی طلب کی ہوگی۔ اور سیدی جون ایلیا کے سامنے تسلیم کیا ہوگا کہ وہ ہوتے تو اسلام پریس آباد کلب جاکر نظم محاصرہ سے لاتعلقی اور نو مئی کی ضرور مذمت کرتے۔
برادرم، میاں غفار کا ملتان سے ’’صوتی‘‘ پیغام آیا کہ اتنے برے حالات پوری زندگی نہیں دیکھے۔ آخر یہ ہمارے ساتھ کرنا کیا چاہتے ہیں۔
برادرم، فاروق شہزاد نے تو مجھے ڈرایا بھی، کچھ خوف کرو۔ کیا تمہیں بالکل بھی ڈر نہیں لگتا۔ وہ خود اتنا ڈرا ہوا تھا کہ مجھے بلیو ایریا بلا کر خود ملنے ہی نہیں آیا۔
حالانکہ قلم کار نے اسے ہنس کر یقین بھی دلایا تھا کہ میرے کالم اتنے بھی پاپولر اور سنگین نہیں ہیں کہ اس پر کوئی ایکشن ہو۔ انھوں نے ڈانٹ کر کہا کہ تمہارے ٹویٹس کی بات کررہا ہوں۔ میں نے قہقہہہ لگا کر کہا کہ تمہارے سوا انھیں کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔
اب تو ویسے بھی ’’دوست‘‘ پوری قوم اور ریاست کو ہی سنجیدگی سے نہیں لیتے۔ وہ پاکستان کو بھی ڈی۔ ایچ۔ اے کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ میرا مطلب ہے ڈائریکٹوریٹ آف ہیلتھ اینڈ ایگری کلچر۔۔۔۔۔۔۔۔ سمجھتے ہیں۔
اگر ڈیفنس ہائوسنگ اتھارٹی سمجھتے تو لوگوں کے اتنے بُرے حالات تو نہ ہوتے۔
پاکستان، بنارسی ٹھگوں سے بڑے ٹھگوں کے ہاتھ چڑھ گیا ہے۔ استاد آصف زرداری، صادق سنجرانی کو بھری محفل میں آن کیمرہ طعنے دے رہے ہیں۔ اب تو فیض نہیں رہا۔ اب کیا کرو گے۔ صادق سنجرانی نے برجستہ کہا کہ آپ جو ہیں۔ پھر فکر کی کیا ضرورت ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن کے صاحبزادے کی دعوت ولیمہ کی مین ٹیبل پر یہ ڈائیلاگ ہوا ہے۔ مولانا نے ’’شدید سادگی‘‘ سے دعوت ولیمہ سجائی ہوئی تھی۔ ’’شدید لائٹنگ‘‘ بھی عین اسلامی تھی۔ اور مینئو تو 1973ء کے آئین کے تناظر میں ترتیب دیا گیا تھا۔مولانا کو ولیمے کے خرچے اور ملنے والی سلامی سے قوم اور ایف بی ار کو ضرور آگاہ کرنا چاہیے۔یہ بھی عین سنت طریقہ ہے۔
آصف زرداری نے بنیادی طور پر دو باتیں واضح کیں۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ جنرل فیض کے کہنے پر، انھوں نے سنجرانی کو نہ صرف چیئرمین بنوایا۔ بلکہ تحریک عدم اعتماد بھی ناکام کروائی۔ انھوں نے البتہ یہ نہیں بتایا کہ سندھ میں سادہ اکثریت، انھوں نے جنرل فیض سے کن شرائط اور کتنی ”چمک“ کے عوض حاصل کی تھی۔
وہ صادق سنجرانی کو وارننگ دے رہے تھے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان کے خواب دیکھنا چھوڑ دو۔ بلوچستان ہمیں دے دیا گیا ہے۔ صادق سنجرانی کو بھی چاہئے کہ وہ اس کی تصدیق، ”بڑوں“ سے کر ہی لیں۔ بلوچستان، اُسی کو ملے گا۔ جسے آبپارہ سے ’’فیض‘‘ ملے گا۔ بہرحال اس کے بعد، پنڈی کے سیدوں کا تعویز ہے جو بہت موثر ہے۔ اگر الیکشن ہوئے تو اس کا پتا چل ہی جائے گا۔
فی الوقت، انتخابی جنگ، اب الیکشن ٹربیونلز میں لڑی جائے گی۔ جہاں پی۔ ٹی آئی کو انتخابات کے بائیکاٹ کی طرف دھکیلا جارہا ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ اور اس کے ساتھی ججز کے پاس، عزت سادات بچانے کا آخری موقع ہے۔ نظریہ ضرورت ، عدلیہ کو ہمیشہ، ہمیشہ کے لئے نگل جائے گا۔
اگر قاضی فائز عیسیٰ، پوری قوم کو اندھا، بہرہ اور کینچوا سمجھتے ہیں تو جو مرضی آتی ہے۔ وہ کریں۔ ایک طرف آئین، قانون، ملک اور 25 کروڑلوگ ہیں۔ دوسری جانب غاصب بندوق، کوڑا، خوف، تشدد اور جبر ہے۔
آخر وہ لمحہ آہی پہنچا ہے۔ جب، صفیں، مزید واضح ہورہی ہیں۔ اب تو سال، مہینے نہیں، صرف چند ہفتے رہ گئے ہیں۔ آپ نے جس کا انتخاب کرنا ہے۔ کرلیں۔
ایک بات طے ہے کہ وقت نے رکنا نہیں ہے اور نہ ہی رک سکتا ہے۔ آپ دوسرا انتخاب کرتے ہیں تو کچھ بھی نیا نہیں ہوگا۔ یہ سب تو پہلے بھی ہوتا، آیا ہے۔
مودی سرکار نے حافظ سعید کو مانگا ہے۔ وہاں پر الیکشن سے قبل مودی نے انتخابی مہم بنانی ہے۔ ایسا کونسا راستہ ہے کہ مودی بھی جیت جائے اور یہاں والوں کا بھی کام ہوجائے۔ یہ اعلیٰ اسکرپٹ توپینٹاگون والے ہی لکھ سکتے ہیں۔ اُس پر کام شروع ہوچکا ہے۔یہ مطالبے بے سبب تو نہیں ہیں۔
دوستوں کے پاس بہت ہی آسان راستہ ہے۔ ہم حافظ سعید ک بھارت کے حوالے نہیں کرسکتے۔ مگر امریکہ کے حوالے تو کرسکتے ہیں نا۔ کمال نہیں ہوجائے گا۔ اس کے بعد، آپ الیکشن کروانے کی بجائے، نواز شریف، زرداری، مولانا فضل الرحمٰن، ایمل ولی، متحدہ قومی موومنٹ اور جی۔ ڈی۔ اے والوں کے نوٹیفکیشن کردیں۔ کسی کو اعتراض ہی نہیں ہوگا۔
اب دیکھیں، نا، انتخابات کے چکر میں کتنی ذلت ہورہی ہے۔دولت الگ سے ضائع ہو گئی۔لندن سے امپورٹڈ، بُت میں جان ڈالنا کتنا مشکل ہے۔ اس سے جان چھوٹ جائے گی۔ امریکہ، مودی، آپ، سب خوش ہوجائیں گے۔ کچھ ”خرچی“ سلیکشن کمیشن اور نگرانوں کو لگوا دی جائے تو بلے بلے ہو جائے گی۔
ہاں، کلبوشن کو، ابھینندن کی طرح، بھارت کے حوالے کرنے کا اپشن بھی ہے۔ اس سے بھی بات بن سکتی ہے۔ راستے کا انتخاب آپ نے کرنا ہے۔ اس کے بعد نوٹیفکیشن در نوٹیفکیشن کردیں۔ پوری قوم کو اعتراض نہیں ہوگا۔
اس کے باوجود، اگر آپ کو بہت زور سے انتخاب آیا ہوا ہے تو ، پھر پورے بیلٹ پیپر پر شیر، تیر، کتاب، پتنگ اور لالٹین، کے انتخابی نشان، جس کو جتنی سیٹیں دینی ہیں۔ اس کے تناسب سے حلقہ وار، بلیٹ پیپر چھاپ دیں۔ ان حلقوں میں صرف، ایک ہی انتخابی نشان ہو۔
میں تو کہتا ہوں ریفرنڈم ہی کروالیں۔ آپ کسی جماعت کو کتنی سیٹیں دینا چاہتے ہیں۔ لوگوں کو کہیں، ٹک لگا دیں۔ یا خود لکھ دیں۔ دوپہر میں ہی انتخابی نتائج کا اعلان کردیں۔ تاکہ ملک کسی سمت تو چلے۔۔۔۔
اس ملک میں اتنا کچھ ہوچکا ہے۔ لوگ اسے بھی ہضم کرجائیں گے۔ وگرنہ کالے ڈالے والا سیرپ اور پولیس کی ہاضم پھکی کس روز کام آئے گی۔
قلم کار نو مئی کی مذمت، پاک فوج زندہ باد اور حافظ صاحب، پائندہ باد کا ابھی سے نعرہ بلند کرتا ہے۔
ہمارے معزز ترین ادارے نوٹ فرمالیں۔
معجزے ہیں یقین کے سارے
ورنہ ہر داستاں اُدھوری ہے
(یوسف خالد)

Comments are closed.