پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کسی معاہدے کے بغیر ختم
اسلام آباد
شمشادمانگٹ
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کسی معاہدے کے بغیر ختم ہوگئے، کیوں کہ مذاکرات کار سرحد پار دہشت گردی کی نگرانی اور اس کی روک تھام کے طریقہ کار پر گہرے اختلافات کو دور کرنے میں ناکام رہے، وزیر دفاع خواجہ آصف نے زور دے کر کہا کہ مذاکرات ’ختم‘ ہوچکے ہیں اور ’غیر معینہ مدت کے مرحلے‘ میں داخل ہوگئے ہیں۔
خواجہ آصف نے نجی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اس وقت جب ہم بات کر رہے ہیں، مذاکرات ختم ہو چکے ہیں، افغان طالبان کا وفد ایک بار پھر ’بغیر کسی پروگرام‘ کے استنبول آیا اور کسی تحریری معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار نہیں تھا۔
ایک سینئر سیکیورٹی ذریعے نے تصدیق کی کہ بات چیت تعطل کا شکار ہوگئی ہے، استنبول میں مذاکرات بند گلی میں پہنچ چکے ہیں۔
تاہم یہ بات سامنے آئی ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک کمزور جنگ بندی اب بھی برقرار ہے۔
وزیر دفاع نے یہ بھی کہا کہ جنگ بندی فی الحال قائم ہے، لیکن خبردار کیا کہ جس لمحے ان کی طرف سے جنگ بندی کی خلاف ورزی ہوگی، ہم بھرپور جواب دیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر انہوں نے کوئی ناقابلِ قبول مطالبات پیش کیے تو یہ محض راہِ فرار ہے، کیوں کہ انہیں معلوم تھا کہ وہ کامیاب نہیں ہوں گے، انہوں نے دہراتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا ایک ہی بنیادی مطالبہ ہے، اور وہ ہے ’افغان سرزمین سے حملوں کا خاتمہ‘۔
پاکستان اور افغانستان کے درمیان مذاکرات کا تیسرا دور جمعرات کو استنبول میں شروع ہوا تھا اور دو دن تک جاری رہا تھا۔
پاکستانی وفد کی قیادت انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کے ڈائریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل عاصم ملک کر رہے تھے، جب کہ وفد میں اعلیٰ فوجی، خفیہ اور وزارتِ خارجہ کے حکام شامل تھے۔
افغان طالبان کی جانب سے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس (جی ڈی آئی) کے سربراہ عبدالحق واثق نے وفد کی قیادت کی، جب کہ سہیل شاہین، انس حقانی اور نائب وزیر داخلہ رحمت اللہ نجیب بھی وفد کا حصہ تھے۔
استنبول سے آنے والی رپورٹس کے مطابق، مذاکرات کے ناکام ہونے کے بعد پاکستانی وفد ہوٹل چھوڑ کر ایئرپورٹ روانہ ہوگیا، دونوں وفود کے درمیان کوئی براہِ راست ملاقات نہیں ہوئی، تاہم ایک روز قبل قطری اور ترک ثالثوں کی موجودگی میں دونوں فریقین نے آمنے سامنے ملاقات کی تھی۔
آئی ایس آئی کے سربراہ اور پاکستانی وفد کے کچھ ارکان استنبول سے روانہ ہوگئے ہیں، لیکن پاکستانی فریق اب بھی عمل کے دوبارہ شروع ہونے کا امکان مسترد نہیں کر رہا، ایک ذریعے نے بتایا کہ تعطل کو توڑنے کی کوشش کی جائے گی، سمجھا جاتا ہے کہ کچھ سینئر حکام ثالثوں کے ساتھ کام کرنے کے لیے وہیں موجود ہیں۔
جمعہ کے بیشتر حصے میں ثالثوں نے افغان وفد سے علیحدہ ملاقاتیں کیں، جن میں پاکستان کے خدشات اور مطالبات پہنچائے گئے۔
اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے ترجمان طاہر حسین اندرابی نے صحافیوں کو بتایا کہ پاکستانی وفد نے اپنا مؤقف ’جامع اور شواہد پر مبنی انداز‘ میں پیش کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’پاکستانی وفد نے ثالثوں کو اپنے شواہد پر مبنی، جائز اور منطقی مطالبات پیش کیے ہیں، جس کا واحد مقصد سرحد پار دہشت گردی کا خاتمہ ہے، اب وہ ثالث افغان وفد کے ساتھ پاکستان کے مطالبات کو نکتے بہ نکتے زیرِ بحث لا رہے ہیں‘۔
یہ مذاکراتی عمل اکتوبر کے اوائل میں ہونے والے سرحدی جھڑپوں کے بعد شروع ہوا تھا، جن میں دونوں جانب کئی فوجی اور شہری ہلاک ہوگئے تھے، اس کے بعد ترکیہ اور قطر نے ثالثی کا کردار ادا کیا۔
پہلا دور دوحہ میں ہوا، جس کے نتیجے میں ایک کمزور جنگ بندی پر اتفاق ہوا، جب کہ دوسرا دور، جو دوحہ ہی میں منعقد ہوا، اس میں صرف نگرانی کے طریقہ کار کے قیام پر عمومی اتفاق اور بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
تازہ ترین دور کا مقصد اسی نگرانی اور تصدیقی طریقہ کار کو حتمی شکل دینا تھا۔

Comments are closed.