پرائیویٹائزیشن کے نام پر غبن کی نئی لہر: زرعی ترقیاتی بینک عرب حکمرانوں کے حوالے؟

پرائیویٹائزیشن کے نام پر غبن کی نئی لہر: زرعی ترقیاتی بینک عرب حکمرانوں کے حوالے؟

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

پاکستان میں “گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ” (جی ٹو جی) معاہدوں کے تحت قومی اداروں کی نجکاری کا عمل ایک نئی اور متنازعہ شکل اختیار کر رہا ہے۔ حالیہ اطلاعات کے مطابق زرعی ترقیاتی بینک (زیڈ ٹی بی) کو بھی کسی عرب ملک کو فروخت کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔ یہ فیصلہ نہ صرف عوامی سطح پر تشویش کا باعث بن رہا ہے بلکہ اس سے جڑے مالی غبن کے الزامات بھی سامنے آ رہے ہیں۔

مذکورہ معاملے میں سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ “گورنمنٹ ٹو گورنمنٹ” کے قانون کا مقصد اسٹرٹیجک اور دفاعی معاملات کی خریداری یا معاہدے ہونا چاہیے تھا، نہ کہ تجارتی یا کاروباری اداروں کی نجکاری۔ تاہم، ذرائع کے مطابق، اسی قانون کے تحت کچھ دن قبل “فرسٹ وومن بینک” بھی ایک عرب ملک کی ذاتی کمپنی کو صرف 4 ارب روپے میں منتقل کر دیا گیا تھا، جس پر حکومت کی جانب سے کوئی تسلی بخش وضاحت سامنے نہیں آئی۔

عوامی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس نجکاری کے پیچھے شریف خاندان کی اجارہ داری اور عرب حکمرانوں سے ذاتی تعلقات ہیں، جنہیں اپنے کاروباری مفادات کی تکمیل کے لیے پاکستانی قومی اداروں کی نجکاری کی جا رہی ہے۔ یاد رہے کہ شریف خاندان کی دولت اور اس کے ذرائع پر سوالات اٹھائے جا چکے ہیں، اور ماضی میں قطر کے حکمرانوں سے متعلق ایک خط بھی سامنے آیا تھا جس میں ان سے شریف خاندان کے اثاثوں کی حفاظت کی درخواست کی گئی تھی۔

ماضی کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق، 90 کی دہائی میں جب 4 پاکستانی بینکوں کی نجکاری کی گئی تھی تو صرف 5 ارب روپے قومی خزانے میں جمع ہوئے۔ جبکہ پرویز مشرف کے دور میں، جب کہ وہ ایک فوجی حکمران تھے، 3 بینکوں کی نجکاری سے 35 ارب روپے قومی خزانے میں آئے۔ اس فرق سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ موجودہ حکومت کے دور میں کس طرح قومی اثاثے بیچنے کا عمل جاری ہے۔

ایک اور سنگین معاملہ یہ ہے کہ وزیر خارجہ، اسحاق ڈار، جو کہ وزیر خزانہ کے طور پر کام کر رہے ہیں، اس نجکاری کے عمل میں براہ راست ملوث ہیں۔ اس پر تنقید کی جا رہی ہے کہ وزارتِ خزانہ کا اصل کام مالی استحکام کو یقینی بنانا ہے، مگر وزیر خزانہ نے وزارتِ خارجہ کے اہم امور کو پسِ پشت ڈال کر نجکاری جیسے اہم فیصلوں میں مداخلت کرنا شروع کر دی ہے۔

عوام میں یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ حکومتی سطح پر ہونے والی یہ نجکاری عوامی مفاد میں نہیں بلکہ مخصوص کاروباری گروپوں اور سیاسی خاندانوں کے مفادات کے لیے کی جا رہی ہے۔ عوام کا سوال یہ ہے کہ اگر یہ ادارے فروخت کرنا ضروری ہیں تو اس کی مکمل وضاحت کیوں نہیں کی جا رہی؟ اور اگر قومی خزانے کی حالت بہتر کرنے کے لیے نجکاری کی جارہی ہے تو اس عمل کو شفاف اور منصفانہ کیوں نہیں بنایا جا رہا ؟

Comments are closed.