سی ڈی اے میں اختیارات کا کھلا مذاق ، کرنٹ چارج آرڈر پر کوئی افسر ذمہ داری لینے کو تیار نہیں

سی ڈی اے

سی ڈی اے میں اختیارات کا کھلا مذاق ، کرنٹ چارج آرڈر پر کوئی افسر ذمہ داری لینے کو تیار نہیں

سی ڈی اے

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) میں اختیارات کے مبینہ غلط استعمال اور قواعد کی دھجیاں اُڑانے کا ایک اور واقعہ سامنے آ گیا ہے، جہاں ایک افسر کے متنازع کرنٹ چارج لک أفٹر آرڈر نے پوری انتظامی مشینری کی کارکردگی اور شفافیت پر بڑے سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ حیرت انگیز طور پر آرڈر جاری کرنے والا کوئی بھی افسر سامنے آنے کو تیار نہیں۔

ذرائع کے مطابق متعلقہ افسر کا کرنٹ و لک أفٹر أفٹر 2 فروری 2024 کو کیا گیا، جو نہ صرف سنیارٹی لسٹ کی خلاف ورزی ہے بلکہ ضابطہ کار کو پسِ پشت ڈالنے کی واضح مثال بھی ہے۔ تاہم، معاملہ منظرِ عام پر آنے کے بعد اعلیٰ افسران نے ایک دوسرے پر ذمہ داری ڈالنے اور لاتعلقی ظاہر کرنے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔

سابق ڈی جی ورکس شیخ حبیب نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تعیناتی کے دوران ایسا کوئی کرنٹ چارج آرڈر جاری نہیں ہوا۔
ڈپٹی ڈائریکٹر ورکس فیاض پنور نے موقف اختیار کیا کہ انہوں نے صرف فائل ڈی جی کو بھیجی تھی، آرڈر کس نے نکالا “اس سے میں مکمل لاعلم ہوں۔”
جبکہ ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل ورکس فیصل گاڈی نے بھی ہاتھ جھاڑتے ہوئے کہا کہ یہ کرنٹ. أرڈر ان کی تعیناتی سے پہلے ہوا، اور اصولی طور پر ڈی جی اس گریڈ کے افسر کا تبادلہ کرنے کا اختیار رکھتے ہی نہیں—یہ آرڈر صرف چیئرمین سی ڈی اے کی منظوری سے جاری ہو سکتا ہے۔

ادارے میں اس تمام صورتحال نے ہنگامی نوعیت کی بےچینی پیدا کر دی ہے۔ اندرونی حلقوں کے مطابق معاملہ واضح طور پر ’’اختیارات کے غلط استعمال‘‘ اور ’’ذمہ داری سے بھاگنے‘‘ کی سنگین مثال ہے۔
افسران نے چیئرمین سی ڈی اے محمد علی رندھاوا سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس مبینہ بے ضابطگی اور اختیارات سے تجاوز پر فوری نوٹس لیں، تاکہ ادارے میں قانون سے بالاتر عملدرآمد کی روش کو جڑ سے ختم کیا جا سکے۔

Comments are closed.