پاکستان ویٹرنری میڈیکل کونسل کی ناکامیوں کا پردہ فاش، ڈاکٹر عالمدار حسین ملک کی اصلاحات کی اپیل

ڈاکٹر عالمدار حسین ملک کی ویٹرنری سائنسز میں اصلاحات کی تجویز ، پی وی ایم سی کی کارکردگی پر سوالات

پاکستان ویٹرنری میڈیکل کونسل کی ناکامیوں کا پردہ فاش، ڈاکٹر عالمدار حسین ملک کی اصلاحات کی اپیل

کراچی

پاکستان ویٹرنری میڈیکل کونسل (PVMC) کے سابق سیکرٹری اور ویٹرنری سائنسز کے ماہر ڈاکٹر عالمدار حسین ملک نے اپنے ایک خصوصی انٹرویو میں ویٹرنری ایجوکیشن کے شعبے میں موجود خامیوں اور ان کے حل کے لیے اہم تجاویز پیش کیں۔ ڈاکٹر ملک نے کہا کہ ویٹرنری سائنس کے شعبے کو جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ نہ صرف جانوروں کی صحت بہتر ہو، بلکہ عوامی صحت اور قومی معیشت پر بھی مثبت اثرات مرتب ہوں۔

ڈاکٹر عالمدار حسین ملک نے بتایا کہ انہوں نے 1984 میں کالج آف ویٹرنری سائنسز لاہور سے ڈی وی ایم (ڈی وی ایم) کی ڈگری حاصل کی، پھر برطانیہ جا کر رائل ویٹرنری کالج لندن سے ایم ایس سی اینیمل ہیلتھ کی تعلیم حاصل کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کا مقصد ہمیشہ پاکستان کے لائیوسٹاک اور ویٹرنری شعبے کو جدید سائنسی بنیادوں پر استوار کرنا رہا تاکہ پاکستان کی معیشت اور عوامی صحت پر مثبت اثرات مرتب ہوں۔

ڈاکٹر ملک نے 2001 میں پاکستان ویٹرنری میڈیکل کونسل (پی وی ایم سی ) کے سیکرٹری/رجسٹرار کے طور پر خدمات کا آغاز کیا اور جولائی 2018 تک اس عہدے پر کام کیا۔ اس دوران انہوں نے کونسل کو ایک فعال ادارہ بنانے کی بھرپور کوشش کی۔

پاکستان ویٹرنری میڈیکل کونسل (پی وی ایم سی) کی کارکردگی پر سوالات

ڈاکٹر عالمدار حسین ملک نے پی وی ایم سی  کی کارکردگی پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ ادارہ اپنے قیام کے مقاصد کو پورا کرنے میں ناکام رہا ہے۔ ان کے مطابق، پی وی ایم سی  کا بنیادی مقصد ویٹرنری ایجوکیشن کو ریگولیٹ کرنا، نصاب میں اصلاحات کرنا اور گریجویٹس کی صلاحیت کو بہتر بنانا تھا، مگر عملی طور پر نہ تو نصاب میں کوئی بڑی اصلاحات کی گئیں، نہ ہی کالجز میں معیارِ تعلیم یکساں بنایا جا سکا۔

ڈاکٹر ملک نے پی وی ایم سی  کی سب سے بڑی کوتاہیاں درج ذیل طور پر بیان کیں:

نصاب کی فرسودگی ، آج بھی پرانے نصاب کے تحت تعلیم دی جا رہی ہے، جس میں جدید سائنس اور تحقیق کی کمی ہے۔

معیارِ تعلیم کی کمی ، ملک بھر میں ویٹرنری کالجز کے معیار میں یکسانیت نہیں اور پی وی ایم سی  اس کو یقینی بنانے میں ناکام رہا ہے۔

اساتذہ کی تربیت پر عدم توجہ ، فیکلٹی کی صلاحیت بڑھانے اور انہیں جدید رجحانات سے روشناس کرانے کے لیے کوئی پروگرام شروع نہیں کیا گیا۔

غیر معیاری کالجز کی منظوری ، ایسے اداروں کو اجازت دی گئی جن کے پاس لیبارٹریز، فیکلٹی یا انفراسٹرکچر نہیں تھا۔

گریجویٹس کی بے روزگاری ، پی وی ایم سی نے ملک میں ویٹرنری گریجویٹس کی ضرورت کا تخمینہ ہی نہیں لگایا، جس کی وجہ سے ہزاروں گریجویٹس بے روزگار ہیں۔

بین الاقوامی سطح پر ناکامی ، پاکستانی ڈگریاں دنیا کے کئی ممالک میں تسلیم نہیں ہوتیں۔

قانونی ذمہ داری سے غفلت ، پی وی ایم سی  نے ضروری ریگولیشنز آج تک نہیں بنائے، جو ادارے کی مضبوطی کے لیے ضروری تھے۔

ڈاکٹر ملک نے کہا کہ وفاقی حکومت نے پی وی ایم سی  کی بہتری کے لیے نہ ماضی میں اور نہ ہی حال میں کوئی سنجیدہ اقدام اٹھایا۔ ان کے مطابق پی وی ایم سی ہمیشہ اپنی لائن منسٹری کے ماتحت رہا، مگر وزارتوں نے کبھی بھی اس ادارے کو مضبوط کرنے یا اس کے قانونی فریم ورک کو مکمل کرنے کی کوشش نہیں کی۔ نہ پالیسی سطح پر کوئی مدد ملی، نہ بجٹ میں اضافہ ہوا، اور نہ ہی اصلاحات کی گئیں۔

ڈاکٹر ملک نے اس غفلت کے نتائج پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ویٹرنری ایجوکیشن عالمی معیار سے بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ ہمارے ڈاکٹرز جدید سائنسی مہارتوں سے محروم ہیں، جس کا اثر عوامی صحت پر بھی پڑ رہا ہے۔ دودھ اور گوشت کی کوالٹی عالمی معیار کے مطابق نہ ہونے کی وجہ سے پاکستان کی برآمدات اکثر مسترد ہو جاتی ہیں۔ اس صورتحال نے نہ صرف کسان اور فارمر کو نقصان پہنچایا بلکہ قومی معیشت بھی متاثر ہوئی۔

ڈاکٹر ملک نے اس مسئلے کے حل کے لیے فوری اصلاحات کی تجویز دی۔ ان کے مطابق، سب سے پہلا قدم یہ ہے کہ پی وی ایم سی  کو قانونی، مالی اور انتظامی طور پر مستحکم کیا جائے۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ سیاسی مداخلت ختم کرے اور پالیسی سازی ماہرین کے سپرد کرے۔ اس کے ساتھ ساتھ بجٹ میں اضافہ، نصاب کی اصلاح، فیکلٹی کی تربیت اور بین الاقوامی اداروں سے روابط کو فروغ دینا ضروری ہے۔

ڈاکٹر عالمدار حسین ملک کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے بروقت یہ اصلاحات نہ کیں تو ویٹرنری سائنس کا شعبہ مزید زوال کا شکار ہو جائے گا۔ انہوں نے ملک کی ویٹرنری تعلیم کو عالمی معیار پر لانے کے لیے حکومت اور متعلقہ اداروں سے فوری اقدام کی اپیل کی۔

Comments are closed.