پاک افغان مذاکرات میں پاکستان کا دوٹوک مؤقف : دہشتگردوں کی سرپرستی کسی صورت قابلِ قبول نہیں

پاک افغان مذاکرات میں پاکستان کا دوٹوک مؤقف : دہشتگردوں کی سرپرستی کسی صورت قابلِ قبول نہیں

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

ترکیہ کے شہر استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے دوسرے دور میں پاکستانی وفد نے افغان طالبان کے وفد کو حتمی موقف پیش کردیا۔

سیکیورٹی ذرائع نے بتایا ہے کہ استبول میں جاری مذاکرات کے دوسرے دور میں پاکستانی وفد نے اپنے حتمی موقف میں واضح کر دیا ہے کہ افغان طالبان کی طرف سے کی جانے والی دہشت گردوں کی سرپرستی نامنظور ہے۔

سکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ پاکستان نے واضح کیا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے خاتمے کے لئے ٹھوس اور یقینی اقدامات کرنے پڑیں گے۔

سیکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ پاکستان کے برعکس طالبان کے دلائل غیر منطقی اور زمینی حقائق سے ہٹ کر ہیں، صاف دکھائی دے رہا ہے کہ افغان طالبان کسی اور ایجنڈے پر چل رہے ہیں۔

سکیورٹی ذرائع کا کہنا تھا کہ یہ ایجنڈا افغانستان، پاکستان اور خطے کے استحکام کے مفاد میں نہیں ہے جب کہ مذاکرات میں مزید پیشرفت افغان طالبان کے مثبت رویے پر منحصر ہے۔

یاد رہے کہ دونوں ممالک کے درمیان استنبول کے مقامی ہوٹل میں مذاکرات کا دوسرا دور گزشتہ روز (25 اکتوبر) کی دوپہر 2 بج کر 30 منٹ پر شروع ہوئے تھے، جو تقریباً 9 گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہے۔

بعد ازاں، آج اس سلسلے کو جاری رکھا گیا اور آج دوسرے روز ثالثوں کی موجودگی میں جاری مذاکرات سے قبل دونوں ملکوں نے اپنی اپنی تجاویز کے جواب میں دوبارہ تجاویز پیش کیں۔

سفارتی ذرائع نے بتایا تھا کہ دوران مذاکرات افغان طالبان نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کی نئی جگہ پر آباد کاری کے حوالے سے پاکستان کو پیشکش کی، جسے مسترد کر دیا گیا۔

ذرائع نے بتایا تھا کہ طالبان نمائندوں نے کالعدم ٹی ٹی پی کو پاکستانی سرحد سے دور منتقل کرنے کی پیشکش کی تھی، جس کے جواب میں پاکستان نے افغان طالبان سے کالعدم ٹی ٹی پی کے خلاف فیصلہ کن کارروائی کرنے کے وعدوں پر عملدرآمد پر زور دیا۔

پاکستان نے مطالبہ کیا کہ افغان طالبان عالمی برادری کے ساتھ کئے گئے اپنے وعدے پورے کریں۔

واضح رہے کہ پاکستان اور افغانستان نے سرحد پر ایک ہفتے تک جاری شدید اور خونریز جھڑپوں کے بعد قطر اور ترکیہ کی ثالثی میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور میں فوری جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا۔

پاکستان اور افغانستان کے درمیان سرحدی کشیدگی میں کمی کے لیے قطر میں مذاکرات 18 اور 19 اکتوبر کو منعقد ہوئے تھے جس میں دونوں ممالک نے اپنے اپنے تحفظات پیش کئے تھے۔

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ہونے والے پہلے دور میں دونوں ممالک نے آنے والے دنوں میں فالو اپ ملاقاتیں کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی تھی تاکہ جنگ بندی کے تسلسل کو یقینی بنایا جاسکے اور اس کے نفاذ کی قابلِ اعتماد اور پائیدار نگرانی کی جاسکے۔

ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاک-افغان مذاکرات کا دوسرا دور آج استنبول میں ہوگا۔

بیان میں کہا گیا کہ افغانستان سے کشیدگی نہیں چاہتے لیکن افغان طالبان سے مطالبہ ہے کہ وہ عالمی برادری سے اپنے وعدوں کی پاسداری کرے اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی)، فتنۃ الہندوستان اور سمیت دیگر دہشت گرد تنظیموں کے خلاف سخت ایکشن لیں۔

علاوہ ازیں، ایک انٹرویو میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا تھا کہ پاکستان، افغانستان، ترکیہ اور قطر کی جانب سے دستخط کردہ معاہدے میں یہ بات واضح طور پر لکھی گئی ہے کہ کوئی سرحدی دراندازی نہیں ہوگی اور جب تک اس معاہدے کی خلاف ورزی نہیں ہوتی، جنگ بندی نافذ العمل رہے گی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کالعدم تحریک طالبان پاکستان، افغانستان سے طالبان کی ’ملی بھگت‘ سے پاکستان پر حملے کرتی رہی ہے، تاہم کابل پہلے ہی ان الزامات کی تردید کر چکا ہے۔

انہوں نے مزید کہا تھا کہ جنگ بندی کے معاہدے کا بنیادی مقصد ’دہشت گردی کے خطرے کا خاتمہ’ ہے، دہشت گردی کئی برسوں سے پاک-افغان سرحدی علاقوں کو متاثر کر رہی ہے۔

خیال رہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان 2600 کلومیٹر طویل متنازع سرحد پر زمینی لڑائی اور پاکستانی فضائی حملے اس وقت شروع ہوئے تھے، جب اسلام آباد نے کابل سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ دہشت گردوں پر قابو پائے جو مبینہ طور پر افغانستان میں محفوظ پناہ گاہوں سے حملے کرتے ہیں۔

بعد ازاں، 11 اور 12 اکتوبر کی درمیانی شب افغانستان سے طالبان حکومت کی سیکیورٹی فورسز نے پاکستان پر بلااشتعال فائرنگ کی تھی، جس پر پاک فضائیہ نے منہ توڑ جواب دیا۔

سیکیورٹی فورسز کی جانب سے افغان علاقوں کنڑ، ننگرہار، پکتیکا، خوست اور ہلمند میں بھی کالعدم ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب کارروائیاں کیں جب کہ جارحیت کا مظاہرہ کرنے والی کئی افغان چوکیوں کو نشانہ بنایا تھا جس میں درجنوں افغان طالبان مارے گئے۔

ناکامی اور پسپائی پر افغان طالبان حکومت نے پاکستان سے فوری جنگ بندی کی استدعا کی تھی جس پر پاکستان نے 15 اکتوبر کو 48 گھنٹوں کے لیے عارضی جنگ بندی کا اعلان کیا۔

طالبان حکومت نے ایک بار پھر جنگ بندی میں توسیع کی درخواست کی جس پر پاکستان نے امن مذاکرات تک جنگ بندی برقرار رکھنے کا اعلان کیا تھا۔

Comments are closed.