قطر کا 19 ارب ڈالر کا دفاعی نظام محض ایک بٹن سے ناکارہ

قطر کا 19 ارب ڈالر کا دفاعی نظام محض ایک بٹن سے ناکارہ

مغربی ہتھیارمسلمانوں کے لیے تحفظ یا کمزوری؟

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

قطر نے اپنے فضائی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے دنیا کے چار جدید ترین دفاعی نظام خریدے : امریکی پیٹریاٹ PAC-3، ناروے کا NASAMS-2، برطانیہ کا Rapier اور فرانس-جرمنی کا Roland۔ ان کی خریداری، دیکھ بھال اور عملے کی تربیت پر مجموعی لاگت 19 ارب ڈالر سے زائد آئی۔

ستم ظریفی یہ ہے کہ جب دوحہ پر حملہ ہوا اور ان نظاموں کی سب سے زیادہ ضرورت تھی، تو یہ سب سسٹمز یکسر غیر فعال ہو گئے۔ بتایا جاتا ہے کہ محض ایک بٹن دبانے سے پورا نظام ناکارہ بنا دیا گیا۔ اس واقعے نے خطے میں یہ سوال شدت سے اُٹھایا ہے کہ کیا مغربی اسلحہ واقعی قابلِ بھروسہ ہے یا یہ محض دکھاوا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ مغربی ممالک مسلم دنیا کو جو ہتھیار بیچتے ہیں، وہ اصل میں دفاعی تحفظ کے بجائے کمزوری اور انحصار کی علامت بن جاتے ہیں۔ یہ ہتھیار تبھی مؤثر دکھائی دیتے ہیں جب ان کا رخ مسلم ممالک یا کمزور حریفوں کی طرف ہو۔ لیکن جیسے ہی بات امریکہ یا اسرائیل جیسے اتحادیوں کے مقابل آتی ہے، یہ نظام اچانک مفلوج ہو جاتے ہیں۔

مزید افسوسناک امر یہ ہے کہ دوحہ پر حالیہ حملے کی اجازت مبینہ طور پر خود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دی، وہی ٹرمپ جس نے کچھ ہی ماہ قبل قطری حکمرانوں سے 1.2 ٹریلین ڈالر وصول کیے تھے۔ قطر نے امریکہ کو مہنگے تحائف اور کھربوں ڈالر کی سرمایہ کاری دی، مگر عملی وقت پر نہ اسلحہ مددگار ثابت ہوا اور نہ ہی امریکی حمایت۔

ایک تجزیہ کار کے مطابق اگر قطر جیسی دولت مند ریاست، جو امریکہ کو کھربوں ڈالر دے چکی ہے، پھر بھی اس کا اعتماد حاصل نہیں کرسکی، تو اس کی وجہ محض مفاد نہیں۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ امریکہ اور اسرائیل کا رشتہ کسی وقتی مصلحت پر نہیں بلکہ ایک گہرے عقیدے اور نظریے پر قائم ہے۔

یہ معاملہ مسلم دنیا کے لیے ایک تلخ سبق ہے: مغرب سے مہنگے ترین ہتھیار خریدنے کے باوجود کوئی ریاست اپنی خودمختاری اور تحفظ کو یقینی نہیں بنا سکتی جب تک کہ اپنی دفاعی صلاحیت خود نہ پیدا کرے۔

Comments are closed.