راولپنڈی بورڈ کا رزلٹ اسکینڈل : محنتی طالبہ کو فیل کر کے 107 نمبروں کا غبن، تعلیمی نظام پر سوالیہ نشان

راولپنڈی بورڈ کا رزلٹ اسکینڈل : محنتی طالبہ کو فیل کر کے 107 نمبروں کا غبن، تعلیمی نظام پر سوالیہ نشان

محنتی بچی کا حق مارا گیا، پیپر ری چیکنگ میں 107 نمبر واپس ملے

راولپنڈی

شمشادمانگٹ

راولپنڈی بورڈ کے 2025 کے سالانہ امتحانات میں بے ضابطگیوں کا ایسا انکشاف ہوا ہے جس نے پورے پنجاب کے تعلیمی نظام کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ گورنمنٹ گرلز ہائی سکول بشارت کی ایک محنتی طالبہ، جو معمولی سی ایوریج اسٹوڈنٹ تھی، کو بورڈ کے “نااہل چیکرز” نے دو مضامین (کیمسٹری اور فزکس) میں فیل قرار دے دیا۔ لیکن جب اس کے والدین نے پیپر ری چیک کرایا، تو حقیقت سامنے آئی کہ کئی سوالات کو چیک ہی نہیں کیا گیا تھا اور انہیں نمبر ہی نہیں دیے گئے تھے۔

ری چیکنگ کے بعد طالبہ کے امتحانی نتیجے میں 107 نمبروں کا اضافہ ہوا اور وہ بچی جو فیل ہو چکی تھی، اب 408 نمبر لے کر پاس ہو گئی۔ یہ واقعہ صرف ایک طالبہ کی کہانی نہیں بلکہ پورے تعلیمی نظام کی نااہلی اور کرپشن کا عکاس ہے۔

یہ اسکینڈل راولپنڈی ڈویژن خصوصاً ضلع چکوال میں تاریخ کے بدترین نتائج کا باعث بنا ہے، جس نے نہ صرف گورنمنٹ سکولوں کی ساکھ کو نقصان پہنچایا بلکہ اساتذہ کی محنت کو بھی مٹی میں ملا دیا۔ یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ اگر ایک ایوریج سٹوڈنٹ کے ساتھ اتنی بڑی زیادتی ہو سکتی ہے، تو باقی طلباء و طالبات کے ساتھ کیا سلوک کیا گیا ہوگا؟

اس سنگین معاملے پر جب چیئرمین راولپنڈی بورڈ اور کنٹرولر امتحانات سے بات کی گئی، تو ان کا کہنا تھا کہ “ایسا کوئی کیس ہمارے نوٹس میں نہیں آیا”۔ تاہم، گورنمنٹ گرلز ہائی سکول کی طالبہ کا مکمل امتحانی ریکارڈ چیئرمین کو بھیجا گیا، جس پر انہوں نے سخت کارروائی کا عندیہ دیا۔

یہ واقعہ نئے سوالات اٹھا رہا ہے، جیسے کیا طلبہ کو جان بوجھ کر فیل کر کے پیپر ری چیکنگ اور ایڈمیشن فیسوں کے ذریعے ناجائز کمائی کی جا رہی ہے؟ کیا غریب والدین کو یہ سوچ کر نشانہ بنایا جاتا ہے کہ وہ پیپر ری چیکنگ کے اخراجات برداشت نہیں کر پائیں گے؟

سماجی حلقے اور والدین یک زبان ہیں کہ پورے راولپنڈی بورڈ میں شفاف انکوائری ہونی چاہیے۔ اگر باقی طلباء کے پیپرز ری چیک کیے جائیں، تو مزید درجنوں نہیں بلکہ سینکڑوں کیسز سامنے آ سکتے ہیں، جہاں معصوم بچوں کا مستقبل اندھیروں میں دھکیلا گیا۔

راولپنڈی بورڈ کا یہ اسکینڈل نہ صرف تعلیمی نظام پر بدنما دھبہ ہے بلکہ اس نے اس سوال کو جنم دیا ہے ، کیا ہمارے بچے محنت سے امتحان دیتے ہیں یا پھر نااہل چیکرز اور کرپٹ نظام کے رحم و کرم پر ہیں؟

Comments are closed.