راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے افسران و اہلکاران کی مبینہ ملی بھگت،ساڑھے 3ارب روپے ہڑپ کرگئے،بڑی شخصیات بے نقاب

راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے افسران و اہلکاران کی مبینہ ملی بھگت ، ساڑھے 3ارب روپے ہڑپ کرگئے

راولپنڈی

شمشاد مانگٹ

راولپنڈی ڈویلمنٹ اتھارٹی کے افسران اور اہلکار مبینہ ملی بھگت سے اکاونٹ سے 3 ارب 50 کروڑ روپے سے زائد نکال کر آپس میں تقسیم کرتے رہے، اس میں مسلم لیگ ن کے سابق ایم این اے کی بیٹی کے اکاونٹ میں بھی 4 کروڑ ٹرانسفر ہوئے، جبکہ افسران بھی ان ہی سی، ڈی ،آر ، سے نکلنے والے پیسوں سے گاڑیاں گفٹ لیتے رہے، اور کیش کروڑوں روپے لیتے رہے، اس کی نشاندہی کی تو اربوں روپے گھپلوں کے انکشاف ثابت ہو گیا۔

ڈی جی آر ڈی اے اور دیگر افسران کو بچانے کے لیے جلد بازی کرتے ہوئے نیب، انٹی کرپشن راولپنڈی اور ایف آئی اے کو درخواستیں دے دی ہیں، جبکہ راولپنڈی ڈویلمنٹ اتھارٹی ہر سال بجٹ پیش کرتے ہیں، اور اجلاس میں بتایا جاتا ہے، اس سال کتنے اخراجات ہوے ہیں،اور اس وقت کتنے پیسے اکاونٹس میں موجود ہیں، اور آئندہ کتنی آمدن کی توقع ہے، ان تمام اکاونٹس میں پڑے رقم 2016 سے 2025 تک آر ڈی اے کے مخصوص لوگوں کے اکاونٹس اور کمپنیوں کے اکاونٹ میں ٹرانسفر کیے گئے۔

نو سالوں میں راولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے 17 ڈی جی تبدیل ہوئے، راولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا افیشل اکاونٹ نیشنل بینک اف پاکستان میں قائم ہے، سرکاری طور پر رقم بینک اکاونٹ میں جمع کی جاتی ہے اور راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈی جی کہ افیشل سائن کے تصدیق کے لیے بینک میں بھیجے جاتے ہیں اور کوئی بھی رقم ڈی جی کے سائن کے بغیر نہیں نکلوائی جا سکتی،2016 میں میٹرو پروجیکٹ کے حوالے سے راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے اکاونٹ میں کثیر رقم جمع کروائی گئی اس وقت ڈی جی آر ڈی اے کا چارج کمشنر راولپنڈی زاہد سعید کے پاس تھااور ڈائریکٹر ایڈمن اینڈ فائنانس جمشید آفتاب تھے ، جن کو ڈائریکٹر ٹاون پلاننگ کے ساتھ اضافی چارج دیا گیا تھا۔

اب سابق ڈپٹی ڈائریکٹر کی وفات کے بعد اچانک انکشاف کیا گیا 2016 سے 2025 تک 3 ارب 50 کروڑ رقم مختلف لوگوں کے اکاونٹ میں سی، ڈی ،آر ، کے ذریعے ٹرانسفر کیے گئے اور سی، ڈی ،ار، غائب ہو گئی۔

حیران کن بات یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں صرف ایک شخص پر ڈالی گئی جو اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں، جنید تاج (مرحوم) نے راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں 2016 سے لے کر 2024 تک ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس کے عہدے پر تعینات رہے ، اس دوران انہوں نے 2023 میں بیرون ملک ایم ایس کرنے کے حوالے سے نو ابجیکشن لیٹر (این او سی) لینے کے بعد ایک سال کا عرصہ بیرون ملک میں تعلیم حاصل کرنے کے غرض سے بیرون ملک گزارا ۔

چند ماہ قبل جنید بھٹی (مرحوم) نے موجودہ ڈی جی ار ڈی اے کنزہ مرتضی سے بھی نو ابجیکشن لیٹر این او سی لینے کے بعد سیالکوٹ میں بطور ڈی جی، پی ایچ اے تعینات ہوے، یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ان کو نو ابجیکشن لیٹر ملا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ مرحوم جنید پر ادارے کی طرف سے کوئی اعتراض نہیں ہے اور ادارے کی طرف سے ان کو کلین چٹ ملی، انہوں نے کوئی کرپشن نہیں کی، کیا دونوں این او سی جاری کرتے ہوئے آر ڈی اے کے اکاونٹ کو چیک کیا گیا، سوالیہ نشان ہے۔

پنجاب کے سرکاری اداروں کا آڈٹ جنرل آف پنجاب کی جانب سے ہر سال آڈٹ کیا جاتا ہے، 2016 سے لے کے 2025 تک اڈٹ جنرل آف پنجاب کی جانب ہر سال کی وہ رپورٹس کہاں غائب کر دی گئی ہے، اگر یہ کرپشن کا سکینڈل 2016 سے لے کے 2025 تک سامنے آیا ہے تو آڈٹ جنرل آف پنجاب کہ اہلکار کی جانب سے نو سالہ رپورٹ کہا موجود ہے۔

اگر رپورٹ جاری نہیں کی گئی تو آڈٹ جنرل پنجاب کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے، نیشنل بینک آف پاکستان میں موجود آر ڈی اے کے اکاونٹ سے جو کروڑوں روپے کی رقم ٹرانسفر ہوتی رہی کیا بینک کے مینیجر نے ڈی جی کے سائن نہیں دیکھے، کیا جو 17 ڈی جی راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ڈیوٹی سر انجام دے چکے ہیں، کیا انہوں نے ادارے کی بینک سٹیٹمنٹ اپنے اپنے دور میں دیکھنا گوارا نہیں کی۔

موجودہ ڈی جی ار ڈی اے کنزا مرتضی کی جانب سے ایمرجنسی میں جنید( مرحوم) کو نوٹس جاری کرنا، ایسے نوٹس جاری کرنے کا کوئی قانون نہیں، اگر کسی پر کرپشن کاالزام لگے تو انکوائری کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے، وہ نوٹس جاری کرتی ہے، انہوں نے پہلے نوٹس جاری کیا، پھر کمیٹی بنائی، جنید تاج اگر کسی کرپشن میں ملوث تھا، اس کو سیالکوٹ ڈی جی پی ایچ اے ٹرانسفر ہونے سے پہلے این او سی کیوں جاری کیاگیا ؟

ذرائع کے مطابق مبینہ طور پر 8 کروڑ کی کثیر رقم اسلام اباد کے ایک شوروم میں بھی ٹرانسفر کی گئی، جو موجودہ افسران کے لیے گاڑیاں بھی خریدی گئی، شوروم والے بھی گواہ ہیں، 2 سرکاری گھروں کی رینویشن 1 کروڑ 50 لاکھ روپے سے کرائی گئی، ان کے پیسے بھی ان سی ڈی آر کے ذریعے نکالے گئے، اس کی تفصیل پیپرا کی ویب سائٹ پہ جاری نہیں کی گئی، اس کے ٹینڈر کے حوالے سے کسی اخبار میں کوئی اشتہار نہیں دیا گیا، شہریوں نے وزیر اعلی پنجاب مریم نواز سے مطالبہ کیا ہے کہ راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں اربوں روپے کی بندر بانٹ میں ملوث افسران کو معطل کر کے ان کی انکوائری کی جائے ۔

راولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں جمع کثیر رقم اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کرنے والے باقی افسران دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں ، 2016 سے لے کے اب تک ار ڈی اے کے مختلف عہدے داران مستفید ہوتے رہے ہیں، یہ کیس اینٹی کرپشن کے پاس بھی چلا گیا ہے، سرکاری خزانے کو لوٹنے والوں کے خلاف کاروائی کرنے میں حکومت کس حد تک کامیاب ہوتی ہے،اس سلسلے میں ڈی جی آر ڈی اے کنزہ مرتضیٰ سے جب رابطہ کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اس ہم نے نیب اور اینٹی کرپشن میں درخواستیں دے دی ہے، وہاں انکوائری شروع ہو گئی ہے، جبکہ ترجمان راولپنڈی ڈویلمنٹ اتھارٹی حافظ عرفان سے ملاقات کی ان سے اس سلسلے میں موقف لیا گیا تو انہوں نے بھی کہا کہ اس کی درخواستیں دے دی ہیں، اس پر انکوائری ہو رہی ہے، رات گئے تک یہ خبر نہ چھاپنے کے لیے مختلف دوستوں کے ذریعے آر ڈی اے کے افسران رپورٹر پر پریشر ڈالتے رہے۔

آر ڈی اے کے ترجمان نے ایک نئی پریس ریلیز جاری کی ہے اس میں اس نے کہا ہے کہ اب ان بے ضابطگیوں میں دیگر ملازمین کو بھی شامل کر لیا گیا ہے، ریٹائرڈ ڈائریکٹر ایڈمن و فنانس آرڈی اے، مرحوم سابق ڈپٹی ڈائریکٹر فنانس آرڈی اے، ریٹائرڈ اسسٹنٹ ڈائریکٹر فنانس آرڈی اے وغیرہ شامل ہیں۔ مالیاتی بدعنوانی سے متعلقہ نقصانات کا ازالہ ضروری ہے۔ انہوں نے کہا قانونی دائرہ کار میں رہتے ہوئے جائیدادوں اور اثاثہ جات سے واجب الادا رقوم کی بازیابی ممکن ہے۔

اس حوالے سے انہوں نے مندرجہ ذیل قانونی دفعات کا حوالہ دیا

قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 33۔ سی کے تحت رقم کی بازیابی، نیب آرڈیننس کے سیکشن 12 اور 15 کے تحت جائیداد کو منجمد اور ضبط کرنا، کوڈ آف سول پروسیجر 1908 (سی پی سی) کے سیکشن 50 کے تحت مرحوم کے ترکہ سے دیوانی واجبات کی وصولی، اور سی پی سی آرڈر 22 رول 4 کے تحت وفات کے بعد قانونی ورثاءکے خلاف کارروائی۔

Comments are closed.