راولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں مبینہ طور پر ایک ارب 94 کروڑ روپے غبن کا انکشاف

راولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں مبینہ طور پر ایک ارب 94 کروڑ روپے غبن کا انکشاف

راولپنڈی 

شمشاد مانگٹ

راولپنڈی 2016 سے 2025 تک ار ڈی اے کے اکاؤنٹ سے کروڑوں روپے کچھ مخصوص لوگوں کے اکاؤنٹ اور کمپنی کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیے گئے

نو سالوں میں راولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے 17 ڈی جی تبدیل ہوئے

راولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کا افیشل اکاؤنٹ نیشنل بینک اف پاکستان میں قائم ہے

سرکاری طور پر رقم بینک اکاؤنٹ میں جمع کی جاتی ہے اور راولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ڈی جیز کہ افیشل سائن کے تصدیق کے لیے بینک میں بھیجے جاتے ہیں اور کوئی بھی رقم ڈی جی کے سائن کے بغیر نہیں نکلوائی جا سکتی ، 2016 میں میٹرو پروجیکٹ کے حوالے سے راولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے اکاؤنٹ میں کثیر رقم جمع کروائی گئی اس وقت ڈی جی آر ڈی اے زاہد سعید تھے اور ڈائریکٹر ایڈمن اینڈ فائنینس جمشید افتاب تھے جن کو ڈائریکٹر ٹاؤن پلاننگ کے ساتھ اضافی چارج دیا گیا تھا

کچھ عرصہ قبل پراب کمیٹی کی رپورٹ میں میں یہ انکشاف کیا گیا 2016 سے 2025 ایک ارب 94 کروڑ رقم مختلف لوگوں کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کیے گئے اور سی ڈی ار غائب ہو گئی

حیران کن بات یہ ہے کہ یہ تمام چیزیں صرف ایک شخص پر ڈالی گئی جو اب اس دنیا میں موجود نہیں ہیں جنید بھٹی مرحوم

جنید بھٹی مرحوم نے راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں 2016 سے لے کر 2024 تک ڈپٹی ڈائریکٹر فائننس کا عہدہ سنبھال رکھا تھا

اس دوران انہوں نے 2023 میں بیرون ملک ایم ایس کرنے کے حوالے سے ڈی جی آر ڈی اے طاہر ظفر سے نو ابجیکشن لیٹر (این او سی) لینے کے بعد ایک سال کا عرضہ بیرون ملک میں تعلیم حاصل کرنے کے غرض سے بیرون ملک گزارا

چند ماہ قبل جنید بھٹی مرحوم نے موجودہ ڈی جی ار ڈی اے کنزہ مرتضی سے بھی نو ابجیکشن لیٹر این او سی لینے کے بعد سیالکوٹ میں بطور ڈی جی ڈی ایچ اے ٹرانسفر کروائی

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب ان کو نو ابجیکشن لیٹر ملا تو اس کا مطلب یہ تھا کہ مرحوم جنید بھٹی پر ادارے کی طرف سے کوئی ابجیکشن نہیں ہے اور ادارے کی طرف سے ان کو کلین چٹ ملی انہوں نے کوئی کرپشن نہیں کی کیا دونوں این او سی جاری کرتے ہوئے آرڈی اے کے اکاؤنٹ کو چیک کیا گیا

یہاں پہ ایک بات اپ کو وضاحت کرنا چاہوں گا کہ پنجاب کے سرکاری اداروں کا آڈٹ جنرل اف پنجاب کی جانب سے اڈٹ کیا جاتا ہے2016 سے لے کے 2025 تک آڈٹ جنرل اف پنجاب کی جانب ہر سال کی رپورٹ کہا ہے

اگر یہ اس کرپشن کا سکینڈل 2016 سے لے کے 2025 تک سامنے ایا ہے تو اڈٹ جنرل آف پنجاب کہ اہلکار کی جانب سے نو سالہ رپورٹ کہا موجود ہے

اگر رپورٹ جاری نہیں کی گئی تو اڈٹ جنرل پنجاب کی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان ہے

نیشنل بینک اف پاکستان میں موجود ار ڈی اے کے اکاؤنٹ سے جو کروڑوں روپے کی رقم ٹرانسفر ہوتی رہی کیا بینک کے مینیجر نے ڈی جی کے سائن نہیں دیکھے ؟

کیا جو 17 ڈی جی راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں ڈیوٹی سر انجام دے چکے ہیں

کیا انہوں نے ادارے کی بینک سٹیٹمنٹ اپنے اپنے دور میں دیکھنا گوارا کی ؟

موجودہ ڈی جی ار ڈی اے کنزا مرتضی صاحبہ کی جانب سے پراب کمیٹی کی حیران کن انکشاف پر اگر ایکشن لیا گیا تو انہوں نے جنید بھٹی مرحوم کو سیالکوٹ ڈی جی پی ایچ اے ٹرانسفر ہونے سے پہلے این او سی کیوں جاری کیا؟

غیر مصدقہ اطلاع کے مطابق مبینہ طور پر اٹھ کروڑ کی کثیر رقم اسلام اباد کے ایک شوروم میں بھی ٹرانسفر کی گئی

موجودہ ڈی جی آر ڈی اے کنزا مرتضی  اپنے لیے دو گھر سرکاری طور پر الاٹ کروا رکھے ہیں ایک جی او آر میں جس کو کیمپ آفس ڈیکلیئر کیا گیا اور دوسرا جم خانے کے قریب ہاؤس نمبر ون جہاں وہ خود رہائش پذیر ہیں ، ان دونوں گھروں کی تزئین و آرائش پر 70 سے 80 لاکھ روپیہ لگایا گیا ، کیا کوئی بھی آفیسر اپنے سرکاری گھر پر اپنا ذاتی پیسہ لگاتا ہے ؟
اگر نہیں تو کیا 70 سے 80 لاکھ روپے کہاں سے آئے ؟ اگر سرکاری طور پر لگائے گئے تو اس کی تفصیل پیپر کی ویب سائٹ پہ جاری کی گئی ؟

کیا اس کے ٹینڈر کے حوالے سے کسی اخبار میں اشتہار دیا گیا ؟

یاد رہے کہ موجودہ بیوروکریٹس کی پروموشن کے حوالے سے ڈی جی آر ڈی اے کنزا مرتضی کا نام زیر غور نہیں کیا گیا ؟

ڈی جی ار ڈی اے کنزا مرتضی کی جانب سے ایک نجی ہاؤسنگ سوسائٹی ٹاپ سٹی کے حوالے سے راولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے بےزاپیوں پر ایک رپورٹ جاری کی گئی جو ابھی تک منظر عام پر نہیں لائی گئی

ذرائع کے مطابق اس رپورٹ میں ٹاپ سٹی کے حوالے سے سرکاری طور پر بے حد بے بے ضابطگياں کی گئی جس سے راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے افسران کی وجہ سے کروڑوں روپے کا نقصان پہنچا

کیا وجہ ہے کہ وہ رپورٹ ابھی تک منظر عام پر نہیں لائی گئی

عوام الناس کا وزیر اعلی پنجاب مریم نواز سے مطالبہ ہے راولپنڈی ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے حوالے سے سامنے انے والے ایک ارب 94 کروڑ روپے کی کرپشن کے حوالے سے ایک جامعہ تفتیش کی جائے

جس میں تمام چیزیں واضح کی جائیں کہ کس کس شخص نے کتنی کتنی کرپشن کی اور ادارے کے کتنے لوگ اس کرپشن سکینڈل میں ملوث پائے گئے ہیں جنہوں نے راولپنڈی ڈیویلپمنٹ اتھارٹی میں جمع کثیر رقم اپنے ذاتی مفاد کے لیے استعمال کی

اس سکینڈل کی وجہ سے ایک شخص جان کی بازی ہار گیا لیکن باقی دودھ کے دھلے ہوئے نہیں ہیں ، 2016  سے لے کے اب تک آر ڈی اے کے مختلف عہدے داران پاکستان کے مختلف اعلی عہدوں پر فائز ہیں تمام کو کٹہرے میں لانا چاہیے

یاد رہے کہ یہ سکینڈل اب اینٹی کرپشن کے پاس ہے دیکھنا یہ ہے سرکاری خزانے کو لوٹنے والوں کے خلاف حکومت کس حد تک کامیاب ہوتی ہے

Comments are closed.