سلامتی کونسل نے شامی صدر اور وزیر داخلہ پر عائد پابندیاں ختم کردیں

سلامتی کونسل نے شامی صدر اور وزیر داخلہ پر عائد پابندیاں ختم کردیں

دمشق

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے شامی صدر احمد الشرع پر عائد پابندیاں ختم کر دی ہیں، جو پیر کے روز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کریں گے۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کی رپورٹ کے مطابق امریکا کی جانب سے پیش کی گئی قرارداد جمعرات کو منظور کی گئی جس کے تحت شام کے وزیر داخلہ انس خطاب پر بھی عائد پابندیاں ہٹا لی گئیں، اس قرارداد کے حق میں 14 ووٹ آئے جبکہ چین نے ووٹنگ میں حصہ لینے سے گریز کیا۔

واشنگٹن کئی ماہ سے 15 رکنی سلامتی کونسل پر زور دے رہا تھا کہ شام پر عائد پابندیوں میں نرمی کی جائے، امریکی صدر ٹرمپ نے مئی میں اعلان کیا تھا کہ امریکا اپنی شام سے متعلق پالیسی میں بڑی تبدیلی لا رہا ہے اور امریکی پابندیاں ختم کی جائیں گی۔

ٹرمپ نے جمعرات کو بعد ازاں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا خیال ہے کہ وہ (الشرع) بہت اچھا کام کر رہے ہیں، یہ ایک مشکل خطہ ہے اور وہ ایک سخت مزاج آدمی ہیں، لیکن میری ان سے اچھی بات چیت رہی، شام کے حوالے سے کافی پیش رفت ہوئی ہے‘، انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم نے شام پر سے پابندیاں اس لیے ہٹائیں تاکہ انہیں بحالی کا منصفانہ موقع مل سکے‘۔

ایچ ٹی ایس، جسے پہلے النصرہ فرنٹ کہا جاتا تھا، القاعدہ کا شام میں باقاعدہ ونگ تھا، تاہم 2016 میں اس نے القاعدہ سے علیحدگی اختیار کرلی تھی، مئی 2014 سے یہ گروہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی القاعدہ اور داعش کی پابندیوں کی فہرست میں شامل ہے۔

ایچ ٹی ایس کے کئی ارکان پر بھی اقوام متحدہ کی پابندیاں عائد ہیں جن میں سفری پابندیاں، اثاثوں کا منجمد کیا جانا اور اسلحہ کی ترسیل پر پابندی شامل ہیں، تاہم اب احمد الشرع اور انس خطاب پر عائد یہ پابندیاں ختم کر دی گئی ہیں۔

اقوام متحدہ کے نگرانوں نے اپنی جولائی کی رپورٹ میں کہا تھا کہ اس سال القاعدہ اور ایچ ٹی ایس کے درمیان کوئی ’فعال روابط‘ نظر نہیں آئے۔

چین نے قرارداد میں غیر جانب داری اختیار کی، چین کے اقوام متحدہ میں سفیر فو کانگ نے کہا کہ ان کے ملک نے اس لیے ووٹنگ سے گریز کیا کیونکہ قرارداد شام میں انسدادِ دہشت گردی اور سیکیورٹی کی صورتحال سے متعلق چینی خدشات کو مناسب انداز میں تسلیم نہیں کرتی۔

چین طویل عرصے سے شام میں ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کے انجام کے بارے میں فکرمند رہا ہے، جس میں چین اور وسطی ایشیا سے تعلق رکھنے والے ایغور جنگجو شامل ہیں، انسانی حقوق کی تنظیمیں بیجنگ پر مسلمان ایغور اقلیت کے ساتھ وسیع پیمانے پر بدسلوکی کے الزامات عائد کرتی ہیں۔

فو کانگ نے کہا کہ جمعرات کو منظور ہونے والی قرارداد واضح طور پر اس بات پر زور دیتی ہے کہ شام کو دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن اقدامات کرنے چاہئیں اور غیر ملکی جنگجوؤں، بشمول ای ٹی آئی ایم، کے خطرے سے نمٹنا چاہیے۔

روس نے جنگ کے دوران اپنے اتحادی بشار الاسد کو سفارتی تحفظ فراہم کیا اور سلامتی کونسل میں اکثر مواقع پر چین کے ساتھ مل کر ایک درجن سے زائد بار ویٹو کا حق استعمال کیا، جنگ کے دوران کونسل شام کی سیاسی اور انسانی صورتحال کے ساتھ ساتھ کیمیائی ہتھیاروں پر بات کرنے کے لیے ہر ماہ کئی اجلاس منعقد کرتی رہی۔

سلامتی کونسل کے طویل تعطل کے بعد شام کے اقوام متحدہ میں سفیر ابراہیم علابی نے جمعرات کو اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ ’یہ شامی خواتین و مردوں کے لیے پیغامِ حمایت ہے جو اپنے وطن کی تعمیرِ نو اور اپنی زندگیاں بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’نیا شام ایک کامیاب کہانی ہوگا، یہ ایک روشن مثال بنے گا جو ثابت کرے گا کہ بین الاقوامی تعلقات میں مثبت شمولیت اور تعمیری تعاون بہترین راستہ ہے، اگر کوئی خدشات ہیں تو شام انہیں خلوص نیت اور باہمی احترام کی بنیاد پر دور کرنے کے لیے تیار ہے‘۔

Comments are closed.