شریعت کورٹ کے جج اچانک منتقلی پر برہم، حکومت سے تحفظات کا اظہار

شریعت کورٹ کے جج اچانک منتقلی پر برہم، حکومت سے تحفظات کا اظہار

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

وفاقی شرعی عدالت کے ججوں نے اپنی عدالت کو اچانک اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت میں منتقل کیے جانے پر ناراضی کا اظہار کیا ہے۔

چیف جسٹس اقبال حمید الرحمٰن، جو کہ وفاقی شرعی عدالت (ایف ایس سی) کے ججوں میں شامل ہیں، انہوں نے اپنی عدالت کو اسلام آباد ہائی کورٹ (آئی ایچ سی) کی عمارت میں اچانک منتقل کیے جانے پر شدید ناراضی اور تحفظات کا اظہار کیا ہے۔

حکومت نے ایف ایس سی کی موجودہ عمارت میں نئی وفاقی آئینی عدالت (ایف سی سی) بنانے کے انتظامات مکمل کر لیے ہیں۔

ذرائع کے مطابق کیپٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) نے آئی ایچ سی کی عمارت کی تیسری منزل پر ایف ایس سی کے لیے کام تیزی سے شروع کر دیا ہے۔

بتایا گیا ہے کہ تین کمرہ عدالت چند دنوں میں تیار ہو جائیں گے، جب کہ چوتھے کمرے کی تیاری میں کچھ تاخیر ہو سکتی ہے۔

فی الحال ایف ایس سی میں 8 کے بجائے صرف 3 جج کام کر رہے ہیں۔

ذرائع کے مطابق یہ جج منتقلی کے فیصلے سے خوش نہیں ہیں اور انہوں نے اپنے خدشات اعلیٰ سطح پر پہنچا دیے ہیں۔

گزشتہ ہفتے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے ایف ایس سی کی عمارت کا دورہ کیا تھا اور بتایا گیا تھا کہ یہ جگہ نئی آئینی عدالت کے لیے موزوں ترین ہے۔

تینوں ججوں نے چیف جسٹس آف پاکستان یحییٰ آفریدی سے ملاقات کر کے اپنے تحفظات ظاہر کیے۔

اسی وجہ سے ایف ایس سی کی عمارت ابھی تک تزئین و آرائش کے لیے سی ڈی اے کے حوالے نہیں کی گئی، حالانکہ پارلیمنٹ نے 27ویں ترمیم منظور کر لی ہے جس سے آئینی عدالت کے قیام کی راہ ہموار ہو چکی ہے۔

وزارت قانون کا کہنا ہے کہ ایف ایس سی میں ضرورت سے زیادہ عملہ موجود ہے کیونکہ 350 ملازمین صرف 56 درخواستوں پر کام کر رہے ہیں، تاہم ایف ایس سی انتظامیہ نے اس بات کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ عدالت میں 500 سے زیادہ فوجداری اپیلیں بھی زیرِ التوا ہیں۔

وزارت کے مطابق اسلام آباد ہائی کورٹ میں تقریباً 370 ملازمین 17 ہزار سے زائد مقدمات نمٹا رہے ہیں، اس لیے ایف ایس سی کے کئی ملازمین کو آئندہ بننے والی آئینی عدالت میں منتقل کیا جا سکتا ہے کیونکہ ان کے پاس اسلامی اور آئینی قانون کا تجربہ ہے۔

دوسری جانب آئی ایچ سی کی عمارت کی تیسری منزل خالی کرانے کا عمل بھی شروع ہو گیا ہے تاکہ وہاں تزئین و آرائش مکمل کی جا سکے۔

اسسٹنٹ رجسٹرار محمد اسد کو اس سارے عمل کی نگرانی کی ذمہ داری دی گئی ہے، وہ پرانی عمارت کے ریکارڈ روم کے معاملات دیکھیں گے اور عدالتی ریکارڈ کو نئے مقام پر منتقل کرنے کا کام بھی سنبھالیں گے تاکہ کام میں کوئی رکاوٹ نہ آئے۔

ذرائع کے مطابق یہ تمام تبدیلیاں اعلیٰ عدلیہ کی تنظیمِ نو کا حصہ ہیں، مگر شریعت کورٹ کے ججوں کی بے چینی ظاہر کرتی ہے کہ عدالتی ڈھانچے میں اتنی بڑی تبدیلیاں کرنا آسان نہیں۔

Comments are closed.