ریاست اور سی ڈی اے آپریشن  : جاوید انتظار

ریاست اور سی ڈی اے آپریشن 

تحریر : جاوید انتظار 

ایک کامیاب ریاست ملک کے اندر پیدا ہونے والے حالات ، خامیوں خرابیوں کا  گہرائی سےاحاطہ اور ادراک کرتی ہے۔ پہلے انکا حل تلاش کرتی ہے۔ اسکے بعد کاروائی کا اختیار بروئے کار لاتی ہے۔ وہ یہ نہیں کرتی اپنی پیدا کردہ حالات ، خامیوں خرابیوں کو بغیر کسی منطق اور دلیل کے اختیارات استعمال کر کے لوگوں میں مایوسی ، نفرت اور اشتعال پیدا کرے۔ وہ ہر ایکشن سے پہلے نوٹس دیتی ہے۔ عملدرآمد نہ کرنے والوں کے خلاف قانون کے اندر رہتے ہوئے کاروائی عمل میں لاتی ہے۔ بصورت دیگر عوامی غیض و غصب کا آتش فشاں بناتی یے۔

جب وہ آتش فشاں وقت آنے پر پھٹثا ہے تو ریاست کو کمزور کردیتا ہے۔ حکومت کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جاتا ہے۔ حکومت جب کوئی ریاستی اور قومی ادارہ کرپٹ ہو تو اسے بدنام یا بند نہیں کرتی ۔ بلکہ ملک ،معاشرے اور عوام کے معروضی حالات ، خامیوں خرابیوں کا باریک بینی سے ادراک احاطہ ، تحقیقات اور تجزیہ کرتی ہے۔ پھر اسکی کارکردگی کو قومی مفاد میں بہتر کرتی جاتی ہے۔ ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک میں بڑا فرق رویہ کا ہے۔ پاکستان کا شمار پاکستان کے ترقی پزیر ممالک میں ہوتا ہے۔ جس کی ریاست حکومت اور سیاست کے فیصلے منطق اور دلیل سے عاری ہو کر طاقت کے نشے میں دھت رہتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستان ایک قوم بننے کی بجائے ہجوم بن گئی ہے ۔ ملک کے کسی ادارے کی کارکردگی کی جانچ پڑتال کی جائے تو عوامی مفادات سے زیادہ اختیارات کے نا جائز استعمال  کا لا متناہی سلسلہ نظر آتا ہے۔ اختیارات کا ناجائز استعمال کرپشن کی ماں ہے۔ وہ کیا خوب کہتے ہیں برے کو نہ مارو اسکی ماں کو مار دو۔

اجکل سی ڈی اے اسلام آباد کے مختلف سیکٹرز اور علاقوں میں اپنے اختیارات کے اندر رہتے ہوئے آپریشن کر رہا ہے۔ جس میں سب سے پہلے سی ڈی اے کا  پہلا ہدف مختلف مارکیٹوں ، بازاروں میں کھانے پینے کے چھوٹے چھوٹے اسٹالوں کو ہٹانا ہے ۔ جو ایک مثبت اقدام ہے۔ کیونکہ کوئی ریاست اور ادارہ کسی کو قانونی تحفظ کے بغیر اس قسم کی تجاوزتی ذریعہ معاش کی اجازت نہیں دیتا ۔

لہذا سی ڈی اے کے آپریشن کو کسی طور غیر قانونی نہیں کہا جا سکتا ۔لیکن 1965 میں بننے والے وفاقی ترقیاتی ادارے سی ڈی اے نے کبھی اپنی روش مزاج اور کارکردگی کا جائزہ لیا۔ کیا سی ڈی اے نے کبھی کسی تجاوزتی ذریعہ معاش کمانے والے ریڑھی بان ، نائی کی دکان یا دیگر کھانے پینے کا سامان فروخت کرنے والے سے پوچھا کہ تم بیروز گار ہو گئے تو تمہارے بچوں کی کفالت کیسے ہوگی۔ تم کس کی اجازت سے یہاں یہ کام کر رہے ہو۔

کیا کسی ادارے نے تم کو اس تجاوزتی ذریعہ معاش سے روکا۔ جواب انکار میں آئے گا۔ کیا ریاست اور حکومت نے ایک ادارے کی کاروائی سے انکے روزگار کی بربادی کے اسباب جاننے کی کوشش کی۔ کیا ریاست اور حکومت نے اتنے خاندانوں کی بیروزگاری کیصورت میں متبادل ذرائع آمدن کا بندوست کیا۔جواب انکار میں ملے گا. ملک میں نام کی جمہوری حکومت ہے۔ کام کی نوعیت آمرانہ ہے۔  کاش سی ڈی اے ایمانداری سے اپنا کام کرتا تو آج غریب لوگ اپنے روزگار کے بچاؤ کے لئے سی ڈی اے کو بددعائیں نہ دے رہے ہوتے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ سی ڈی اے کے ارباب اختیار سر جوڑ کر بیٹھتے ان مسائل کے پیدا ہونے کی وجوہات پر غور کر کے قابل عمل حل تلاش کرتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ ریاست اور حکومت ان تجاوزتی ذریعہ معاش کمانے والوں کی جانچ کرتی اور متبادل ذرائع آمدن کا راستہ نکالتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ اللہ تعالیٰ جب کسی کو اختیار دیتا ہے تو  اسکا مطلب ہے  اللہ اس سے کوئی کام لینا چاہتا ہے ۔ اللہ قرآن میں فرماتے ہیں کہ میرے سب سے زیادہ قریب وہ ہے جو دوسروں کے لیے فاہدہ مند ہے۔ جب ریاست حکومت اور ادارے درد دل سے عاری ہو جائیں تو چنگیزیت باقی رہ جاتی ہے۔ جو جلد بدیر اپنی موت کا سامان پیدا کرتی ہے۔

سی ڈی اے کی کارکردگی کسی طور قانون کے اندر نہیں رہی۔اج بھی دیکھا جائے تو تمام محکموں کے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں سے مینٹیننس کے نام پر پانچ فیصد کٹوتی ہوتی ہے۔ نجی مکانوں اور کمرشل بلڈنگز سے سی ڈی اے پراپرٹی ٹیکس وصول کرتا ہے۔

جس سے اربوں روپے عوام اور سرکاری ملازمین کی فلاح و بہبود کے لئے سی ڈی اے کے اکاؤنٹ میں آتے ہیں۔لیکن اسلام آباد میں سرکاری کواٹرروں کی مرمت اور ان میں واقع چھوٹے چھوٹے پارکوں، سیوریج سسٹم کی حالت زار قابل رحم ہے۔ سی ڈی اے کی انکوائریوں میں سرکاری کواٹرروں کے لئے نہ شیشہ ہے نہ دروازے کی کنڈی ہے۔ گلی محلوں کے پارکس میں بڑھی  ہوئی گھاس پھوس جنگل کی منظر کشی کر رہی ہیں ۔

پینے اور سیوریج کی پائپ لائنیں ایک دوسرے کے اتنے قریب ہیں کہ پھٹ کر سیوریج کا پانی پینے کے پانی میں مل کر موذی امراض پھیلا رہا۔ سیوریج کے گٹر ابل رہے ہیں ۔ جس سے گزرنے کے راستے لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کر رہے ہیں۔مختلف مراکز میں پلازے  ایک خاص کام کے لئے الاٹ کیے گئے لیکن میڈیکل کے لئے الاٹ ہونے والے پلازوں میں گاڑیوں کی ورکشاپس کھل گئی ہیں۔ مضافاتی علاقوں میں زرعی زمینوں کی رجسٹری رہائشی پلاٹوں میں ہو رہی ہے۔ جسکا سی ڈی اے اس وقت نوٹس لیتا ہے جب لوگ وہاں رہائشی بستیاں بسا لیتے ہیں۔

پلازوں میں فٹ پاتھوں پر تجاوزات کر کے دفاتر اور دکانیں بن چکی ہیں۔ کچی آبادیاں اور اسلام آباد کے مضافاتی علاقوں میں تجاوزات کی داستانیں کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ۔بڑے بڑے ہوثلز نے سی ڈی اے کی زمین پر بھاڑیں لگا رکھی ہیں۔ الغرض تجاوزات اور لا قانونیت جگہ جگہ ہے۔ لیکن ڈی اے اپنے گریبان میں جھانکنے کی بجائے غریبوں کے ذریعہ معاش کے پیچھے لگ گیا ہے۔میں یہ نہیں کہہ رہا سی ڈی اے آپریشن غیر قانونی ہے۔ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ سی ڈی اے اپنے فرائض منصبی سے غافل ہو کر مجرمانہ خاموشی اختیار کر رہا ہے۔

مندرجہ بالا مسائل کا بہترین حل موجود ہے ۔ جسکے لئے سنجیدہ طرز عمل اور درد دل کی ضرورت ہے۔ جو اپنے اگلے کالم میں قارئین کے سامنے رکھوں گا۔ جاتے جاتے اتنا ضرور کہوں گا کہ سی ڈی اے اسلام آباد کو اس حال میں پہچانے والوں کا سب سے پہلے احتساب کرے۔ انکے اعمال کی سزا اسی کو دے۔ جب مجرم جرم کرنے کے باوجود پاک دامن ہوگا تو عوام میں غم و غصہ بڑھے گا۔ جسکا نقصان سی ڈی اے سے زیادہ حکومت وقت اور اسکے اتحادیوں کو ہوگا۔

سی ڈی اے اپنے آپریشن اور سلگتے ہوئے زمینی حقائق کا از سر نو جائزہ لے کر آہندہ کا لائحہ عمل ترتیب کرے۔ 

اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو آمین

Comments are closed.