طلبہ میڈیاخواندگی وڈیجیٹل تصدیق مہارتوں سے آراستہ ہوکرجھوٹے بیانیہ کا پھیلاو روک سکتے ہیں ، شفقت عباس

طلبہ میڈیاخواندگی وڈیجیٹل تصدیق مہارتوں سے آراستہ ہوکرجھوٹے بیانیہ کا پھیلاو روک سکتے ہیں ، شفقت عباس

لاہور

ڈائریکٹر جنرل پی آئی ڈی لاہور شفقت عباس نے کہا ہے کہ طلبہ خود کو میڈیاخواندگی، تنقیدی سوچ وڈیجیٹل تصدیق کی مہارتوں سے آراستہ کر کے جھوٹے بیانیے کے پھیلائو کو روک اور اس بات کو یقینی بنا سکتے ہیں کہ سچائی پروپیگنڈے پر غالب ہو،لہذایونیورسٹیوں و کالجوں کو اپنے سیکھنے کے ماحول میں ڈیجیٹل بیداری اور اخلاقی ابلاغ کو مربوط کرنا چاہیے۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے جمعرات کوپی آئی ڈی لاہور کی جانب سے ڈیپارٹمنٹ آف میڈیا ڈویلپمنٹ کمیونکیشن پنجاب یونیورسٹی لاہور میں “ڈیجیٹل انتہا پسندی کے دور میں امن کی سفارت کاری” کے موضوع پر منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔سیمینار میں شعبہ کے طلبہ نے بڑی تعداد میں شرکت کی،سیمینار سے شعبہ کی اسسٹنٹ پروفیسر ڈاکٹر ڈاکٹر عائشہ اشفاق،سینئر صحافی محمد دلاور چوہدری نے بھی خطاب کیا ۔ سوال و جواب کا سیشن بھی سیمینار کا حصہ تھا جس میں طلبہ نے موضوع کے متعلق سوالات کئے۔ ڈی جی پی آئی ڈی نے کہا کہ “ڈیجیٹل انتہا پسندی کے دور میں امن ڈپلومیسی” کے موضوع پر اس اہم سیشن میں آپ سب کا استقبال کرنا اعزاز کی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ دنیا کو آج ایک نئی قسم کی کشمکش کا سامنا ہے جس کا آغاز میدان جنگ سے نہیں،ڈیجیٹل دائرے میں ہوتا ہے، جہاں بیانیے کو توڑ مروڑ کر پیش کیا اور سچائیوں کو مسخ کیا جاتا ہے،اسی طرح تصورات کو پہلی گولی چلنے سے بہت پہلے ہتھیار بنا دیا جاتا ہے۔انہوں نے کہا کہ پہلگام حملے اور پاک بھارت کے درمیان مئی کے تنازعہ کے چند منٹوں کے اندرانڈیا نے ڈیجیٹل پروپیگنڈے کی ایک مربوط مہم چلائی۔انہوں نے کہا کہ جب غلط معلومات وجعلی ویڈیوزحقائق سے زیادہ تیزی سے پھیلتی اور گمنام اکائونٹس عوامی جذبات کو زیادہ متاثر کرتے ہیں تو ان حالات میں میڈیا خواندگی پروگراموں کے ذریعے نوجوانوں کو شامل کرنے اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کی آواز اور پاکستان کی سچائی کو عالمی سطح پر فوری و قابل اعتبار طور پر سنا جائے۔

سیمینارسے خطاب کرتے ہوئے سینئر صحافی محمد دلاور چوہدری نے کہا کہ جو غلطی ہماری ہے ،اسے ہمیں تسلیم کرنے کی ضرورت ہے،سوشل میڈیا پر جو بھی مواد ہیں ،انہیں آگے پھیلانے کے ہم ذمہ دار ہیں۔انہوں نے کہا کہ انتہاپسندی یہی ہے کہ اپنے خیالات،سوچ اور نظریے کو دوسروں پر زبردستی مسلط کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل انتہاپسندی کا مقابلہ کرنے کے لئے لازمی ہے کہ ہر چیزکی تصدیق کی جائے،اپنا مطالعہ وسیع کریں اور بغیر تصدیق مواد کو آگے نہ پھیلائیں۔انہوں نے کہا کہ اس حوالے سے تعلیمی ادارے خصوصاً میڈیا سے وابستہ شعبے اس آگاہی میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ڈاکٹر عائشہ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ آجکل مستند ذرائع سے انفارمیشن کم حاصل کی جاتی ہیں اور سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان میں 66.9ملین افراد ٹک ٹاک استعمال کررہے ہیں،دوسرے نمبر پر 55.9ملین افراد یوٹیوب استعمال کرتے ہیں ،اسی طرح 49.4ملین افراد فیس بک استعمال کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن آجکل کے دور میں جنگی ہتھیاروں سے زیادہ خطرناک ہتھیار ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس موضوع پر مباحثہ کی ضرورت ہے کہ اس کا کس طرح مقابلہ کیا جاسکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے کہ نوجوانوں کے پاس موبائل تو ہے لیکن ڈیجیٹل لٹریسی نہیں اور اس کی اشد ضرورت ہے۔سیمینار کے اختتام پر مہمانوں کو شیلڈز پیش کی گئیں۔

Comments are closed.