سید ارشاد نبی، ایک تعلیمی استعارہ

Shahid Ewan

ہمارے دوست کیپٹن(ر) عمر فاروق نے ایک پوسٹ کے ذریعے ہمارے علم میں اضافہ کیا کہ جاپان میں ہر دسواں شہری عمر کی 80دہائی عبور کر چکا ہے۔ جاپان میں طویل العمری کی وجوہات یہ ہیں کہ وہ لوگ سادہ خوراک کھاتے ہیں مچھلی ان کی پسندیدہ غذاؤں میں شامل ہے، وہ پیدل چلتے ہیں اور سائیکل کی سواری ان کا معمول ہے۔

جاپان کے ہر شہر میں کتابوں اور رسالوں کی بڑی دکانیں ہیں بس ہو یا ٹرین، سوار ہوتے ہی جاپانی کتاب کھول کر پڑھنا شروع کر دیتے ہیں زیادہ کتابیں جاپانی زبان میں لکھی گئیں ہیں۔ وہ تحائف دینے اور لینے پر بہت خوش ہوتے ہیں اور شکریہ ادا کرنے کا انداز بھی بڑا دلکش ہوتا ہے جھک کر مؤدبانہ کورنش بجا لاتے ہیں۔

جاپانیوں کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ ہر وقت ہشاش بشاش، مسکراتے اور خوش رہتے ہیں ان کے چہرے پر شکن تک نہیں آتی اور شاید انہیں غصہ بھی نہیں آتا۔ جاپانی چھٹی کے دن خاص طور پر بہترین لباس پہننا پسند کرتے ہیں، ان کے ہاں ایک اچھی بات یہ بھی ہے کہ چھوٹا ہو یا بڑا اپنا کام خود کرے گا نہ کوئی اردلی، نہ کوئی خادم۔ وقت کا صحیح مصرف اور پابندی دیکھنا ہو تو جاپان کا چکر لگا آئیں ہر پروگرام کا شیڈول پہلے طے کر لیا جاتا ہے ٹیکسی ڈرائیور سے لے کر چیف ایگزیکٹو تک ہر کسی کو اپنے معمول کا پتہ ہوتا ہے آپ کی گھڑی تو دھوکا کھا سکتی ہے مگر ٹرانسپورٹ اور ٹرینوں کا مقررہ شیڈول اِدھر ُادھر نہیں ہو سکتا یہی وجہ ہے کہ جنگ عظیم کی ہولناک تباہی کے باوجود جاپان نے بے بہا ترقی کرکے دنیا کی صف اول کی قوموں میں اپنا شمار کرایا ہے۔

ہمارے کئی پاکستانی بھی جاپانی ہو کر رہ گئے ہیں انہی میں ہمارے دوست ملک نور اعوان نے تو باقاعدہ جاپان کی دامادی اختیار کر لی ہے ان کے بچے بھی جاپان میں پیدا ہوئے، وہ کبھی کبھار اسلام آباد میں اپنے گاؤں آتے ہیں موصوف مسلم لیگ ن جاپان کے سرگرم رکن بھی ہیں۔ جاپان کی نسبت پاکستان میں سو سال کی زندگی پانے والے افراد کی تعداد انتہائی کم رہ گئی ہے البتہ 80,90سال کی عمر کو پہنچنے والے بزرگ افراد بستر سے لگ کر رہ گئے ہیں مگر چند ایک ایسے بھی ہیں کہ پیرانہ سالی ان پر اثر انداز نہ ہو سکی اور وہ اب بھی بھرپور زندگی گزار رہے ہیں انہیں دیکھ کر رشک آتا ہے انہی میں ہمارے دیرینہ بزرگ دوست سید ارشاد نبی بھی ہیں جو ماہ ستمبر2023کو ماشآاللہ زندگی کی آٹھ دہائیاں پوری کر چکے ہیں گو کہ ان کے ساتھ فقیر کا تعلق تین دہائیوں پر محیط ہے قریبی تعلق ہونے کے باوجود انہیں کبھی casualلباس میں نہیں دیکھا وہ بلا کے خوش لباس، خوش خلق اور خوش خوراک ہیں۔ چند روز قبل واہ کینٹ کی ایک تقریب میں طویل عرصے بعد ان سے اچانک ملاقات ہوئی تو انہیں برسوں پہلے کی طرح نوخیز اور ہشاش بشاش دیکھ کر دلی خوشی کے ساتھ خوشگوار حیرت بھی ہوئی۔

شاہ صاحب کی نرینہ اولاد تو نہیں البتہ قدرت نے انہیں تین ہونہار بیٹیوں سے ضرور نوازا ہے اور وہ اس لحاظ سے خوش قسمت ہیں کہ انہیں داماد ایسے ملے جنہوں نے سگے بیٹوں سے بڑھ کر ان کا ساتھ دیا۔ دو بیٹیاں دیار غیر میں مقیم ہیں چنانچہ گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے وہ کبھی برطانیہ تو کبھی امریکہ جاتے رہتے ہیں۔ ہمارے محترم دوست نے اپنی تینوں بیٹیوں کی شادیوں پر اس وقت انہیں نئے ماڈل کی گاڑیاں جہیز میں دی تھیں جب لوگوں کے پاس وسائل کی کمی ہوا کرتی تھی۔

سید ارشاد نبی نے پی او ایف واہ کی ملازمت کو محض اس لئے خیر باد کہہ دیا تھا کہ انہیں تعلیم سے عشق کی حد تک لگاؤ ہے، ضیاء الحق کے دور میں جب نجی سطح پر تعلیمی ادارے کھولنے کی اجازت ملی تو انہوں نے سب سے پہلے انوار چوک واہ کینٹ میں علامہ اقبالؒ پبلک سکول کی بنیاد رکھی اور پھر ٹیکسلا جیسے پسماندہ علاقہ میں بھی اسی نام سے سکول کی عمارت بنائی جو آج بھی اسی شان سے نونہالانِ قوم کی تعلیم و تربیت میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں جسے اب ان کی صاحبزادی کنول سہیل چلاتی ہیں۔

ٹیکسلا میں ان کا سکول دیکھنے کے لئے خاص طور پر حاضر ہوا، بڑے تپاک سے ملے سکول کا آڈیٹوریم، کلاس رومز، آئی ٹی اور سائنس لیبارٹری دیکھ کر دل باغ باغ ہو گیا سکول میں صفائی کے اعلیٰ انتظامات بھی سربراہ ادارہ کی نفاست پسند طبیعت کا ثبوت ہے۔ سکول کی ہیڈمسٹریس مسز شاہدہ نے کلاس رومز اور وہاں علم حاصل کرنے والے بچوں سے ملوایا تو انہیں دیکھ کر خوشی ہوئی کہ موجودہ ترقی یافتہ دور میں ان کا سکول ایک مثالی درسگاہ کے طور پر کام کر رہا ہے۔

سید ارشاد نبی نے ہم دونوں کے مشترکہ دوست اور میرے صحافتی استاد جناب صابر منہاس مرحوم کے ساتھ مل کر نجی تعلیمی اداروں کی اصلاحات کے لئے ایک نمائندہ تنظیم بنائی اور پرائیویٹ سکولوں کی رجسٹریشن سے لے کر یوٹیلٹی بلوں میں رعایت کے لئے جنرل مشرف دور میں بڑی تگ و دو اور محنت کی تھی۔ وہ ہماری جوانی کے دن تھے اور فقیر بھی ان کی انتھک ٹیم کا حصہ ہوا کرتا تھا۔ گوہمارے ممدوح سید ارشاد نبی جاپانی تو نہیں ہیں لیکن سچے اور کھرے پاکستانی ضرور ہیں انہوں نے اپنی زندگی کا قیمتی وقت تعلیم کے شعبے کی ترقی وترویج میں صرف کر دیا، ان کے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد ملکی تعمیر و ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کر رہی ہے۔ دعا ہے اللہ ان کو عمر خضر اور صحت و تندرستی والی زندگی عطا فرمائے۔

 

بلا تامل، شاہد اعوان

 

Comments are closed.