خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشتگردوں کو جگہ دی گئی ، ترجمان پاک فوج

خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشتگردوں کو جگہ دی گئی ، ترجمان پاک فوج

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا ہے کہ خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو جگہ دی گئی، یہاں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، جس کا خمیازہ آج تک خیبرپختونخوا کے بہادر اور غیور عوام اپنے خون سے بھگت رہے ہیں، سندھ اور پنجاب میں گورننس قائم ہونے کی وجہ سے دہشت گردی نہیں۔

ترجمان پاک فوج لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری کور ہیڈ کوارٹرز پشاور میں اہم پریس کانفرنس سے خطاب کیا، انہوں نے کہا کہ پریس کانفرنس کا مقصد صوبہ خیبرپختونخوا میں سیکیورٹی صورتحال کا جائزہ لینا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس کانفرنس کے آغاز میں خیبرپختونخوا کے غیور عوام کی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کیا۔

انہوں نے کہاکہ ہم سب نے خیبرپختونخوا کے غیور عوام کے ساتھ مل کر دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ افواج پاکستان کے تجدید عزم کیلئے آیا ہوں، دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے کے عزم کی تجدید کرتےہیں۔

انہوں نے کہا کہ 2024 میں آپریشن کے دوران 769 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا، جن کی یومیہ تعداد 2.1 بنتی ہے، ان آپریشنز کے دوران 577 قیمتی جانوں نے جام شہادت نوش کیا، جن میں پاک فوج کے 272 بہادر افسران اور جوان، پولیس کے 140 جبکہ 165 معصوم پاکستانی شہری شامل ہیں۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ خیبرپختونخوا میں 2025 کے دوران 15 ستمبر تک 10 ہزار 115 انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیے جاچکے ہیں جن کی یومیہ تعداد 40 بنتی ہے جن میں 917 دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا جاچکا ہے، جن کی یومیہ شرح 3.5 بنتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ رواں سال خیبرپختونخوا میں آپریشنز کے دوران 516 قیمتی جانوں نے جام شہادت نوش کیا جس میں پاک فوج کے 311 افسران و جوانان، پولیس کے 73 اہلکار اور 132 معصوم شہری شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ 10 سالوں میں آپریشن کےدوران واصل جہنم واصل ہونے والے خارجیوں کی تعداد کا موازنہ کیا جائے تو ایک سال میں مارے گئے خارجیوں کی تعداد گزشتہ 10 سالوں میں مارے گئے خارجیوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے، اسی طرح گزشتہ سال مارے گئے خارجیوں کی تعداد اس سے گزشتہ 9 سالوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ تھی۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہا کہ 2016 سانحہ آرمی پبلک اسکول کے بعد انٹیلی جنس ایجنسیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا شروع کیا اور ایک پر امن خیبرپختونخوا کے خواب کی تکمیل کے قریب پہنچ گئے۔

انہوں نے کہا کہ مگر بدقسمتی سے خیبرپختونخوا میں سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو اسپیس دی گئی، یہاں گورننس اور عوامی فلاح و بہبود کو جان بوجھ کر کمزور کیا گیا، جس کا خمیازہ آج تک خیبرپختونخوا کے بہادر اور غیور عوام اپنے خون اور اپنی قربانیوں کے ذریعے بھگت رہے ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ان عوامل کا جاننا ضروری ہے جن کی وجہ سے آج دہشت گردی موجود ہے، انہوں نے دہشت گردی ختم نہ ہونے کی 5 بنیادی وجوہات بھی بیان کیں۔

نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہ کرنا۔

دہشت گردی کے معاملے پر سیاست کرنا اور قوم کو اس سیاست میں الجھانا۔

بھارت کا افغانستان کو دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر استعمال کرنا۔

افغانستان میں دہشت گردوں کو جدید ہتھیاروں اور پناہ گاہوں کی دستیابی۔

مقامی اور سیاسی پشت پناہی کا حامل دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کا گٹھ جوڑ۔

انہوں نے کہا کہ صرف 2024 اور 2025 میں پاکستان جہنم واصل کیے جانے والے افغانیوں کی تعداد 161 بنتی ہے، اس کے علاوہ افغانستان کی سرحد سے دخل اندازی کرتے ہوئے 135 خارجی مارے گئے جبکہ 2 سال میں خود کش حملے کرنے والے 30 حملہ آور میں افغان شہری تھے، یہ اعداد و شمار افغانستان کو بھارت کے دہشت گردی کے بیس کیمپ کے طور پر عیاں کرتے ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے مزید کہا کہ 2014 میں سانحہ اے پی ایس کے بعد تمام سیاسی جماعتیں، وفاقی اور صوبائی حکومتیں پشاور میں بیٹھیں اور ایک متفقہ لائحہ عمل تیار کیا جسے نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا اور تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا کہ اگر دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ان نکات پر کام کرنا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ 2021 میں پچھلی صوبائی حکومت کے دور میں جن نکات پر کام ہوچکا تھا انہیں خارج کرکے 14 نکات پر مشتمل نظرثانی شدہ نیشنل ایکشن پلان ترتیب دیا اور تمام سیاسی عمائدین، تمام سیاسی جماعتوں اور اس وقت کی صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ اگر دہشتگردی کو جڑ سے اکھاڑنا ہے تو ان 14 نکات پر کام کرنا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ موجودہ حکومت نے بھی اسی ایکشن پلان کو وژن عزم استحکام کا نام دیا، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کی اولین وجہ یہ ہے کہ ان نکات پر عمل نہیں ہورہا۔

انہوں نے کہاکہ ایکشن پلان کا پہلا نکتہ یہ ہے کہ دہشت گردوں کو مارنا ہے، صرف یہی ایک نکتہ زمینی کارروائیوں سے تعلق رکھتا ہے، کیا اس پر کام ہورہا ہے کہ نہیں ہورہا، صرف خیبرپختونخو ا میں سیکیورٹی ایجنسیاں یومیہ 40 سے زیادہ انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کر رہی ہیں کہ نہیں کر رہیں، اس سال ہم نے 900 سے زیادہ دہشت گردوں کو کیفر کردار تک نہیں پہنچایا؟ کیا ہمارے شہدا اس بات کی گواہی نہیں دے رہے کہ پہلے نکتے پر کام ہور ہا ہے اور بالکل ہو رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ باقی 13 نکات کا بھی احاطہ کرلیا جائے کہ ان پر کیا کام ہورہا ہے، انہوں نے کہاکہ دوسرا نکتہ تھا کہ میڈیا، سوشل میڈیا اور سیاستدان یک زبان ہوکر دہشت گردی کے خلاف کھڑے ہوں گے، یہ ہم نے نہیں کہا، تمام سیاسی عمائدین اور سیاسی جماعتیں 2014 سے اس بات پر متفق ہیں، کیا ہم اس بیانیے پر کھڑے ہیں؟

ترجمان پاک فوج نے سوال کیا کہ کیا آپ کو یہ آواز نہیں آتی کہ دہشت گردوں سے مذاکرات کرلیے جائیں، کیا ہم اس نیشنل ایکشن پلان پر عمل کررہے ہیں؟ کیا ہر مسئلے کا حل بات چیت ہے ؟ اگر حل مسئلے کا حل بات چیت میں ہے تو جب 6 اور 7 مئی کو بھارت نے پاکستان پر میزائل مارے، معصوم بچوں، خواتین، مدرسوں اور مساجد کو شہید کیا تو اس ملک کے عوام نے یہ کیوں نہیں کہا کہ اگلے دن بات چیت کرلیتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ اگر ہر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو کوئی غزوہ ہوتا، نہ جنگیں ہوتیں اور نہ مہمات ہوتیں، اگر مسئلے کا حل بات چیت میں ہوتا تو بدر کے میدان کو یاد کریں کہ سرور کونینؐ جن کے لیے دو جہان بنائے گئے، وہ ذات جس سے بڑھ کر کوئی انسان نہیں، انہوںؐ نے اس دن کیوں بات چیت نہیں کرلی؟ ادھر تو باپ کے آگے بیٹا، بھائی کے آگے بھائی، قریشی کے آگے قریشی اور اموی کے آگے اموی کھڑا تھا، کیوں نہیں بات چیت کرلی؟

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہاکہ آپ کے عمائدین نے فیصلہ کیا تھا کہ ہم بیانیہ بنائیں گے مگر گمراہ کن بیانیہ بنایا جاتا ہے۔

انہوں نے کہاکہ ہم نے نہیں ہمارے سیاستدانوں، تمام صوبائی حکومتوں نے کہا کہ اگر دہشت گردی کو ختم کرنا ہے دہشت گردی اور جرائم کے گٹھ جوڑ کو توڑنا ہے، غیرقانونی کاروباروں، منشیات، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان اور نان کسٹم پیڈ گاڑیوں کے ناسور سے اپنے خطے کو پاک کرنا ہے۔

انہوں نے کہاکہ جب قانون نافذ کرنے والے ادارے ان ناسوروں کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، تو ان عناصر کی پشت پناہی کے لیے مختلف سیاسی اور مقامی سطح سے آوازیں آتی ہیں، فیصلہ تو آپ نے کیا تھا کہ اس کو ختم کیے بغیر دہشت گردی ختم نہیں ہوسکتی۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ اس ملک کے سیاستدانوں اور سیاسی حکومتوں نے فیصلہ کیا کہ دہشت گردی کے مقدمات کے لیے اپنے عدالتی نظام کو مضبوط کرنا ہے لیکن ابھی ہم کہاں کھڑے ہیں کہ اگست 2025 میں خیبرپختونخوا کی انسداد دہشت گردی عدالتوں سے کسی دہشت گرد کو سزا نہیں ہوئی، 34 مقدمات زیر التو ہیں، 2878 زیرالتوا مقدمات 3 سال سے کم عرصے جبکہ 1706 مقدمات کو 3 سال سے زیادہ عرصہ ہوچکا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے مزید کہا کہ 2014 اور 2021 میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ صوبے میں دہشت گردی کو ختم کرنا ہے تو محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کو مضبوط کرنا ہے مگر اس وقت سی ٹی ڈی خیبرپختونخوا کی آپریشنل صلاحیت 3200 ہے، دہشت گردی آپ کے سامنے ہے،کیا یہ تعداد کافی ہے؟

انہوں نے کہا کہ ہم خیبرپختونخوا کی بہادر پولیس اور سی ٹی ڈی کو سلام پیش کرتے ہیں، مگر اس کی تعداد صرف 3200ہے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان میں مدارس کے اندراج کا فیصلہ ہوا تھا مگر ہم اب تک صوبے میں 4 ہزار 355 تقریباً 55 فیصد مدارس کا آج تک اندراج ہوسکا ہے، ابھی اندراج ہی مکمل نہیں ہوسکا تو نصاب ایک کرنا اور اس کے اوپر نگرانی کرنا تو الگ بات ہے۔

انہوں نے کہا اگر سوال یہ ہے کہ دہشت گردی ختم کیوں نہیں ہورہی تو ان سوالات کا جواب بھی دیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ 2014 اور پھر 2021 میں بھی یہ فیصلہ کیا گیا کہ افغانوں کو واپس بھیجنا ہے، تو آج یہ بیانیہ کہاں سے آگیا کہ ان کو واپس نہیں بھیجنا، انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا آپ 2014 اور 2021 میں غلط تھے، اور جب افغانستان میں امن آچکا ہے اور وہاں کوئی قابض افوج نہیں ہے، تو کئی دہائیوں تک افغان بھائی کی مہمان نوازی کرنے والی ریاست انہیں واپس جانے کا کہتی ہے تو اس پر سیاست کی جاتی ہے، اس پر بیانیے بنائے جاتے ہیں اور گمراہ کن باتیں کی جاتی ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ دوحہ معاہدے پر کہا گیا کہ افغان سرزمین نہ صرف امریکا بلکہ خطے میں بھی کسی کے خلاف استعمال نہیں ہوگی، مگر آپ کےسامنے اعداد و شمار رکھے ہیں کہ کتنے افغان تشکیلات میں آتے ہیں، کتنے ہم نے ختم کیے اور کتنے افغان خودکش حملوں میں شامل ہیں، تو پھر کیسے افغان سرزمین خوارج اور دہشت گردوں کے لیے بیس کیمپ کے طور پر استعمال نہیں ہو رہی؟

انہوں نے کہاکہ امریکا افغانستان سے گیا تو اس کا چھوڑا ہوا اسلحہ بڑی تعداد میں خوارج کے پاس گیا، امریکا کی اپنی سگار کی 2024 کی رپورٹ کہتی ہے کہ امریکی فوج 7.2 ارب ڈالر مالیت کے ہتھیار افغانستان چھوڑ کر گئی۔

ترجمان پاک فوج نے خیبرپختونخوا میں آپریشنز کے دوران مارے گئے خارجیوں سے برآمد امریکی ہتھیاروں کی تصاویر بھی دکھائیں۔

انہوں نے کہا کہ پچھلے 3 ماہ میں دہشت گردی کے 3 ہزار 984 واقعات پیش آئے، ان میں سے 70 فیصد خیبرپختونخوا میں کیوں پیش آئے؟ یہ بڑا منطقی سوال ہے، جو نوجوان اور سوشل میڈیا بھی کرتا ہے، دہشت گردی کے یہ واقعات پنجاب اور سندھ میں کیوں نظر نہیں آتے؟

انہوں نے کہا کہ سندھ اور پنجاب میں دہشت گردی نہ ہونے کی بنیادی وجہ یہ نہیں کہ دہشت گرد ان صوبوں میں کام نہیں کرنا چاہتے اور اپنے نظریات کی وہاں ترویج نہیں چاہتے، نہیں اسکی قطعی یہ وجہ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان صوبوں میں گورننس قائم ہے، وہاں کی پولیس اور قانون نافذ کرنے والے ادارے قائم ہیں اور وہاں پر سیاست اور دہشت گردی کا گٹھ جوڑ کام نہیں کررہا، صرف یہی وجہ ہے جبکہ ہمارے اس عظیم صوبے میں بجائے اس کے کہ دہشت گردی کو کارکردگی،گورننس اور قانون کی عملداری سے ختم کیا جائے، اسے صوبائیت کا رنگ دیاجارہا ہے اور اس پر سیاست کی جارہی ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ کیا یہ بذات خود ایک مجرمانہ عمل نہیں ہے؟ کہ گورننس، کارکردگی، صلاحیت اور استعداد کار اور سی ٹی ڈی کو بڑھانے اور عدالتی نظام کو مضبوط بنانے اور غیرقانونی مقیم افغانوں کو واپس افغانستان بھیجنے کے بجائے ایک کنفیوژن اور ابہام پیدا کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ انہی وجوہات کی بنیاد پر آرمی چیف واضح طور پر کہہ چکے ہیں، گورننس کے خلا کو پاک فوج کے افسران، جوان، پولیس کے افسر اور جوان، بچے اور ہمارے ادارے اپنے خون سے پُر کررہے ہیں، حکومتی خلا کو پاکستان اور خیبرپختونخوا کے عوام روزانہ اپنے خون سے پُر کررہے ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے سوال کیا کہ اگر گورننس کے خلا کو پُر نہیں کرنا اور متفقہ نیشنل ایکشن پلان پر عمل نہیں کرنا تو پھر خیبرپختونخوا کو دہشت گردی کے ناسور سے کیسے چھٹکارا ملے گا؟

لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے واضح کیا کہ ریاست پاکستان کے انسداد دہشت گردی آپریشنز کے حوالے سے جو جھوٹا، فرضی اور من گھڑت بیانیہ بنایا جارہا ہے اور شہدا اور افواج پاکستان اور پولیس کی قربانیوں کی جو تضحیک کی جاتی ہے، یہ سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ کے مذموم عزائم کی عکاسی کرتی ہے، خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے پیچے یہی سیاسی و مجرمانہ گٹھ جوڑ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم واضح کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی عوام کی سیکیورٹی کسی دوسرے ملک، بالخصوص افغانستان کو رہن نہیں کی جاسکتی، صرف ریاست، افواج پاکستان اور اس کے قانون نافذ کرنے والے ادارے ہی پاکستان کے عوام کی سلامتی کے ضامن ہیں۔

ترجمان پاک فوج نے واضح کیا کہ پاکستان کی فوج اور اس کے اداروں کو کسی سیاسی شعبدہ بازی سے پریشان نہیں کیا جاسکتا، ریاست پاکستان اور اس کے عوام کو کسی فرد واحد کی خواہش کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا، وہ فرد کو تن تنہا انتہائی غیر ذمہ داری سے دہشت گردی کو پاکستان اور بالخصوص خیبرپختونخوا میں واپس لایا۔

انہوں نے کہا کہ کسی فرد واحد کو یہ اجازت نہیں دی جاسکتی کہ وہ اپنی ذات اور اپنے مفاد کے لیے پاکستان اور خیبرپختونخوا کے غیور اور باعزت عوام کے جان، مال اور عزت آبرو کا سودا کرے۔

انہوں نے کہا کہ افواج پاکستان آئین اور قانون کے مطابق خیبرپختونخوا میں داخلی سلامتی کے فرائض انجام دے رہی ہیں، جس کی بنیادی ذمہ داری صوبائی اور مقامی انتظامیہ کی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ بجائے منفی سیاست، الزام تراشی اور خارجہ جرائم پیشہ مافیا کی سہولت کاری کے بجائے آپ اپنی اس بنیادی ذمہ داری پر توجہ دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ہم یہ بھی امید کرتے ہیں کہ آپ خیبرپختونخوا کے غیور عوام کی حفاظت کے لیے افغانستان سے سیکیورٹی کی بھیک مانگنے کے بجائے اس صوبے کے ذمہ داران ہوتے ہوئے خود اس کی حفاظت کریں گے جو نہ صرف خیبرپختونخوا کے عوام کا حق ہے بلکہ آپ کا فرض ہے۔

ترجمان نے کہا کہ افواج پاکستان یہ بات بھی واضح کرنا چاہتی ہیں کہ خارجی دہشت گرد اور ان کے سہولت کار چاہے وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی عہدے پر ہو، اس کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی کیونکہ پاکستانی قوم سیسہ پلائی دیوار ’بنیان مرصوص‘ کی طرح دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف کھڑی ہے اور انشااللہ کھڑی رہے گی، اور ہمارے شہدا کا خون کبھی رائیگاں نہیں جائے گا۔

لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چوہدری نے کہا کہ ہم یہ بھی واضح کرنا چاہتے ہیں کہ اب اسٹیٹس کو نہیں چلے گا، جو شخص یا گروہ اپنی مجبوری یا کسی فائدے کی وجہ سے خارجیوں کی سہولت کاری کررہا ہے اس کے پاس 3 راستے ہیں۔

1۔ اول یہ کہ وہ خود ان خارجیوں کو ریاست کے حوالے کر دے۔ 2۔ یا پھر وہ دہشت گردی کیخلاف کارروائیوں میں ریاست کے اداروں کے ساتھ مل کر اس ناسور کو اپنے انجام تک پہنچائے تاکہ معصوم عوام کا نقصان نہ ہو۔ 3۔ تیسرا راستہ بتاتے ہوئے انہوں نے متنبہ کیا کہ اگر یہ دونوں کام نہیں کرنے تو پھر خارجیوں کے سہولت کار ہوتے ہوئے ریاست پاکستان کے بھرپور ایکشن کے لیے تیار ہوجائیں۔

ترجمان پاک فوج نے صوبے کے شہدا کی تصاویر دکھاتے ہوئے رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ یہ اس دھرتی کے وہ بہادر ہیں جنہوں نے آپ کے لیے جان دی ہے، ان کی شہادتوں اور ان کی قربانیوں پر کسی کو سیاست کی اجازت نہیں دی جاسکتی، انہوں نے کہا کہ پاکستان زندہ باد رہے گا اور خیبرپختونخوا زندہ باد رہے گا، اس حقیقت کو کوئی تبدیل نہیں کرسکتا۔

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے افغانستان میں چھوڑے گئے امریکی ہتھیاروں کے دہشت گردوں کے ذریعے استعمال ہونے کے حوالے سے پوچھے گئے سوال کے جواب میں کہا کہ ضروری نہیں کہ یہ ہتھیار اور سامان فتنۃ الخوارج اور فتنۃ الہندوستان ہی استعمال کریں، یہ سامان اور ہتھیار کہیں بھی استعمال ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خود امریکی حکومت بھی فکرمند ہے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات بھی رپورٹ ہوئے ہیں جس میں ان کا کہنا ہے کہ ان ہتھیاروں اور سامان کو واپس لیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ کرنا افغانستان کی حکومت کاکام ہے کہ وہ غیرریاستی عناصر کی سرپرستی جاری رکھنا چاہتی ہے یا نہیں ہمارا کام انہیں اپنا پیغام پہنچادینا ہے اور وہ ہم زبانی اور عملی طور پر کام کررہے ہیں، ہم بالکل واضح ہیں کہ ہم نے ان ( دہشت گردوں) سےکیسے نمٹنا ہے۔

نیشنل ایکشن پلان کے حوالے سے سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ہم سب جانتے ہیں کہ چیزیں کیسے تبدیل ہوں گی، چیزیں اس وقت تبدیل ہوں گی جب ہم میں یکجہتی ہوگی اور ہم نیشنل ایکشن پلان پر عمل کریں گے، ہم بارہا کہہ چکے ہیں کہ دہشتگردوں سے پوری قوم کو لڑنا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو سیاسی شعبدہ بازی کرتے ہیں ان کا گریبان پکڑیں اور ان سے پوچھیں کہ تم ہماری جان، عزت اور مال سے کیوں کھیل رہے ہو اور دہشت گردی کے بیانیے کو کیوں سپورٹ کر رہے ہو۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ دہشتگردی ایسے ختم ہوگی کہ ہم دہشتگرد اور اس کے سہولتکار کو ایک برابر جانیں، جو دہشتگردوں کی سہولتکاری کر رہا ہے اور اس نے اسلحہ اپنے گھر میں رکھا ہوا ہے تو اس میں اور دہشتگرد میں کیا فرق ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ جو دہشتگردوں کی سہولتکاری کر رہا ہے اس کے پاس تین چوائس ہیں، پہلی یہ کہ وہ دہشتگرد کو خود ریاست کے حوالے کرے، اگر وہ یہ نہیں کرنا چاہتا یا نہیں کرسکتا تو ریاست کے ساتھ ملے اور مل کر اس ناسور کو ختم کرے کیونکہ اس کی بھی زندگی اس (دہشتگرد) نے اجیرن کی ہوئی ہے اور اگر وہ یہ بھی نہیں کرنا چاہتا تو پھر وہ ایک سہولتکار ہے تو یہاں کولیٹرل ڈیمیج کا سوال کہاں سے آگیا، یہاں کوئی کولیٹرل ڈیمیج نہیں ہے بلکہ یہ دہشتگرد اور اس کے سہولتکار ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ سیاسی حکومت کبھی یہ کہتی ہے کہ بات چیت سے مسئلہ حل ہوجائے اور کبھی کہتی ہے کہ کابل کے آگے جھکنے سے مسئلہ حل ہوجائے گا، تو یہ ان کے بیانیے کا بڑا چھوٹا سا حصہ ہے، جو دہشتگردوں کا سہولتکار مارا گیا اس سہولتکار کے لواحقین کو پیسے دے کر اس کا رتبہ بڑھانا حکومت کیلئے بہت آسان ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ گورننس اور کرپشن پر بات کیوں نہیں کرتے، کیونکہ ہر لمحہ ان کے بیانیے کی بنیاد صرف سیکیورٹی مسائل پر ہے، باقی صوبے دہشتگردی کے خلاف جنگ کیلئے این ایف سی کا ایک فیصد دے رہے ہیں، یہاں ( خیبرپختونخوا ) سے نہیں دیا جارہا وہ کہاں جا رہا ہے، ترقیاتی منصوبوں پر کام نہیں ہورہا، عوام کے لیے کام ہونا چاہیے تھا، کیوں نہیں ہوا، یہاں 40 ارب روپے کی کرپشن ایک پسماندہ ضلع میں درمیانے درجے کے ٹھیکیدار کے پاس سے نکل آئی، اس پر آپ نے سوال نہیں اٹھانا تاکہ دہشتگردی کے اوپر بیانیہ اس کنفیوژن میں رکھا جائے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے مزید کہا کہ آپ کو کوئی یہ نہیں بتائے گا کہ افغانستان کے ساتھ طویل سرحد پر دوسری طرف سے ہماری فوج کو انگیج کرکے دہشتگردوں اور اسمگلروں کو سرحد پار کرایا جاتا ہے، جھوٹ اور کنفیوژن پر مبنی بیانیہ بنانا اس میں مہارت حاصل ہوچکی ہے اور اس کے لیے سوشل میڈیا کو وسیع پیمانے پر استعمال کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے عوام کو دیانتداری کے ساتھ سچ بولنے کی ضرورت ہے۔کیونکہ اس منفی سیاست کا، اس گمراہ بیانیے کا خمیازہ دہائیوں سے خیبرپختونخوا بھگت رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چنانچہ ہم سب کو اس منفی پروپیگنڈے کے خلاف یک زبان ہوکر کھڑے ہونا ہوگا، اور جھوٹ اور غلاظت سے بھری ہوئی سیاست سے اپنے آپ کو دور کرنا پڑے گا، اور ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چوائس نہیں ہے اور ہم یہی کریں گے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہماری دہشتگردی کے خلاف جنگ کسی بھی سیاسی رکاوٹ کے بغیر جاری رہے گی، یہ ہماری بقا کی جنگ ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نیشنل ایکشن پلان کے چودہ نکات پر جو عمل نہیں کرنا چاہ رہے ان کے اپنے ذاتی، مالی اور سیاسی فوائد ہیں، ہمارے جوان اور افسران کسی ذاتی یا مالی فائدے کے لیے نہیں بلکہ پاکستان کے لیے گولی کھاتے ہیں، اگر ہم نے ایک آزاد، غیرت مند اور خود دار قوم کی حیثیت سے جینا ہے تو پھر چوائس ایک ہی ہے اور وہ یہی ہے کہ ہم نے دہشتگردوں، ان خوارج اور ان کے سہولت کاروں سے لڑنا ہے اور اس ناسور کو ختم کرنا ہے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ہم ریاست کا ادارہ ہیں اور ہمارے لیے تمام سیاسی جماعتیں اور تمام سیاسی رہنما قابل احترام ہیں، لیکن اگر کوئی پارٹی یا کوئی شخص یہ سمجھتا ہے کہ اس کی سیاست اس ریاست سے بڑی ہے تو یہ ہمیں قبول نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کے آئین کے مطابق ملک میں جمہوریت ہے، اور ہمارے لیے یہ انتہائی قابل احترام نظام ہے، اور اسی میں پاکستان کا مستقبل ہے، اسی جمہوری نظام کے اندر سے ہی ملک نے خود کو بہتر کرنا ہے اور آگے بڑھنا ہے، ہم ایک ریاستی ادارے کے طور پر کہتے ہیں کہ ہمیں اپنی سیاست کے لیے استعمال نہ کریں، ہم ریاست اور عوام کے لیے جان دیتے ہیں ہم کسی کی سیاست کی جنگ نہیں لڑتے۔

ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ جب تک سیاسی اور مجرمانہ گٹھ جوڑ کے ذریعے دہشتگردی کو باقی رہنے کے لیے سہارا دیا جاتا رہے گا، ہمارے جوان شہید ہوتے رہیں گے، اور یہ سلسلہ اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک پاکستان کے عوام ان کے گمراہ کُن سیاسی پروپیگنڈے کو سامنے رکھ کر ان سے سوال نہیں کرتے، جب تک آپ (نیشنل ایکشن پلان کے) ان چودہ نکات پر پوری طرح عمل نہیں کرتے، یہ سلسلہ اس وقت تک چلے گا جب تک ہم یہ نہیں جان لیتے کہ پاکستان کے تحفظ کے ضامن ہم خود ہیں۔

افغانستان میں نور ولی محسود کی ہلاکت کے حوالے س پوچھے گئے سوال کہ افغانستان سے یہ الزام عائد کیا جا رہا ہے کہ پاکستان نے 4 مقامات پر اسڑائیک کیے ہیں اور مفتی نور ولی محسود مارا گیا ہے، جس پر جواب دیتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ میں یہ واضح کر چکا ہوں کہ افغانستان آپریشن بیس کے طور پر پاکستان کے خلاف دہشتگردی کرنے کے لیے استعمال کیا جار ہا ہے، اس کے ثبوت بھی موجود ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عوام کے جان و مال کی حفاظت کرنے کے لیے جو ضروری اقدامات کیے جانے چاہئیں وہ کیے جائیں گے اور کیے جاتے رہیں گے۔

Comments are closed.