افغانی آدم خان کا انجام: جرم سے زیادہ خطرناک ریاستی خاموشی؟

افغانی آدم خان کا انجام: جرم سے زیادہ خطرناک ریاستی خاموشی؟

پشاور

راولپنڈی میں ہونے والے ایک مبینہ پولیس مقابلے میں پشاور کے بدنامِ زمانہ قبضہ مافیا اور دہشت گرد گروہ کے سرغنہ افغانی آدم خان کی ہلاکت، بظاہر ایک بڑے مجرم کے خاتمے کی خبر ہے ، لیکن درحقیقت، یہ خبر ہمارے ریاستی اداروں، عدالتی نظام، اور سیکیورٹی ڈھانچے پر ایک زبردست سوالیہ نشان چھوڑ گئی ہے۔

یہ شخص ایک یا دو نہیں، تیرہ سے زائد مقدمات میں مطلوب تھا — جن میں دہشت گردی، قتل، اغوا، اقدام قتل، بھتہ خوری، اور پولیس پر حملے جیسے سنگین جرائم شامل تھے۔ اس کے باوجود وہ پشاور میں آزادانہ گھومتا رہا، غیرقانونی قبضے کرتا رہا، ویڈیوز وائرل کرتا رہا، اور سوشل میڈیا پر کھلے عام پولیس کو چیلنج کرتا رہا۔

خیبر پختونخوا پولیس : مقدمات کے انبار کے باوجود گرفتار نہ کر سکی۔ کیا یہ ناکامی صرف پیشہ ورانہ غفلت تھی یا اس کے پیچھے سیاسی پشت پناہی، مقامی اثر و رسوخ اور اندرونی ملی بھگت بھی شامل تھی؟

سی ٹی ڈی : دہشت گردی جیسے حساس مقدمات میں کارروائی نہ کر سکی۔ اگر CTD جیسے ادارے بھی اتنے سنگین کیسز میں تاخیر کریں گے، تو پھر ان کے وجود کا مقصد کیا ہے؟

FIA اور سائبر کرائم ونگ : مجرم سوشل میڈیا پر سرگرم رہا، دھمکیاں دیتا رہا، اور اپنا اثر و رسوخ بڑھاتا رہا۔ آخر وہ آن لائن اتنا متحرک کیسے رہا؟ اسے روکنے کے لیے کیا کوئی مؤثر قدم اٹھایا گیا؟

انٹیلیجنس ایجنسیاں : آدم خان کے روابط، مالی ذرائع، اور گروہی نیٹ ورک کی نگرانی کیوں نہ ہو سکی؟ اگر وہ کسی بڑے واقعے کا سبب بنتا، تو ذمہ داری کس پر آتی؟

ذرائع بتاتے ہیں کہ اس کا انجام دراصل ایک پلان شدہ انکاؤنٹر تھا، جو راولپنڈی میں پیش آیا۔ وہ پشاور سے فرار ہو کر کچھ دنوں سے کوہستان کالونی میں روپوش تھا۔ اطلاعات ہیں کہ اس نے ایک بااثر شخصیت کی فیکٹری کو نذر آتش کیا تھا، جس کے بعد اعلیٰ سطح پر اس کے خلاف کارروائی کا فیصلہ کیا گیا۔ اور یوں وہ پولیس مقابلے میں مارا گیا۔

مگر سوال یہ ہے کہ کیا قانون صرف اس وقت حرکت میں آتا ہے جب کسی “بڑے آدمی” کا نقصان ہو؟ عوام کا جان و مال، عزت و وقار، اور تحفظ اتنے برسوں تک کس کے رحم و کرم پر تھا؟

یہ بھی غور طلب بات ہے کہ اتنے مقدمات کے باوجود عدالتوں میں مؤثر کارروائی کیوں نہ ہو سکی؟ کیا شواہد ناکافی تھے؟ کیا گواہان کو تحفظ نہیں دیا گیا؟ کیا پراسیکیوشن کی کارکردگی ناقص تھی؟ اگر ایسا ہے، تو یہ صرف ایک کیس کی بات نہیں — یہ پورے نظام کی ناکامی ہے۔

عوام کی رائے منقسم ہے۔ کچھ لوگ خوش ہیں کہ ایک خطرناک مجرم اپنے انجام کو پہنچا۔ مگر سنجیدہ حلقے اس واقعے کو ایک علامتی فتح تو مانتے ہیں، مگر ساتھ ہی وہ اس بات پر افسوس کا اظہار کرتے ہیں کہ

افغانی آدم خان کا مارا جانا کوئی انصاف کا جشن نہیں، بلکہ انصاف کے تاخیر زدہ اور کمزور نظام کی شکست خوردہ جیت ہے۔ اگر ادارے واقعی سنجیدہ ہیں تو اب محض بیانات کافی نہیں ، انہیں داخلی احتساب، ادارہ جاتی اصلاحات، اور طاقتور حلقوں کے اثر و رسوخ کے خاتمے کے لیے عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔

ورنہ کل کوئی اور “آدم خان” سوشل میڈیا پر نیا ہیرو بن جائے گا اور ریاست پھر سوالوں کے کٹہرے میں کھڑی ہوگی۔

Comments are closed.