صحافت میں سچائی کا سفر پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہوتا ہے

صحافت میں سچائی کا سفر پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہوتا ہے

صحافت کے لبادے میں چھپی چند کالی بھیڑیں بین الاقوامی نو سرباز ٹھگوں کو سرپرستی فراہم کرتی ہیں ، راجہ اسرار حسین

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

وفاقی دارالحکومت اور بین الاقوامی سطح پر میڈیا کوریج کی ٹیم کے ارکان پر حملہ اور صحافی راجہ اسرار حسین کا سرگوشی، اس بات کا غماز ہے کہ صحافت میں سچائی کا سفر پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہوتا ہے۔ صحافتی اقدار اور آزادی کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو اکثر اپنی جان و مال کی قیمت چکانی پڑتی ہے۔

راجہ اسرار حسین نے اس معاملے کے بارے میں اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی دارالحکومت میں نو سرباز ٹھگوں کے ٹولے کو بے نقاب کرنے کی پاداش میں مجھ سمیت میڈیا کوریج ٹیم کے ارکان پر جعلی حکیم حبیب نواز اور اس کے غنڈوں نے دن دہاڑے حملہ کر کے ہمیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا۔ اس حملے کا مقدمہ تو درج کیا گیا لیکن تفتیش میں کوئی خاطرخواہ پیشرفت نہیں ہوئی۔

راجہ اسرار حسین نے مزید کہا کہ مرکزی ملزم نواز شریف کی گرفتاری کے باوجود نہ تو ملزمان کی شناخت کی گئی، نہ ہی اسلحہ برآمد ہوا اور نہ ہی موبائل فون ضبط کیا گیا۔ اس کے باوجود مقدمہ کی کاپی اور عدالت پیشی کی اطلاع بھی مجھے نہیں دی گئی۔” وہ حیران ہیں کہ وفاقی پولیس کے تفتیشی افسران کی تفتیش کا یہ معیار ہے۔

انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ تفتیشی افسر سرفراز احمد نے عدالت میں صرف ریمانڈ کی استدعا کی اور مقدمے کی مزید تفصیلات اور ریکوری کرنے کے بارے میں کوئی بات نہیں کی۔ نتیجتاً، گرفتار ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا گیا تاکہ باقی ملزمان کی گرفتاری پر تاخیر کی جا سکے۔

راجہ اسرار حسین نے اس موقع پر کہا کہ صحافت کے لبادے میں چھپی چند کالی بھیڑیں بین الاقوامی نو سرباز ٹھگوں کو سرپرستی فراہم کرتی ہیں جو صحافت میں نقب لگانے میں تاخیر نہیں کرتے۔ وہ جلد ان کالی بھیڑوں کے بارے میں انکشافات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

راجہ اسرار حسین نے صحافتی تنظیموں اور صحافی دوستوں کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے ان کے ساتھ اس مشکل وقت میں کھڑے ہو کر آواز اٹھائی۔ انہوں نے کہا  کہ وہ صحافی دوست اور صحافتی تنظیمیں جنہوں نے میرے لیے آواز اٹھائی اور مشکل وقت میں ساتھ کھڑے ہوئے، ان سب کا دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں۔

راجہ اسرار حسین کا کہنا ہے کہ ان کی زندگی کا مقصد اب ان لوگوں کو بے نقاب کرنا ہے جو موت کے سوداگروں کے ساتھ ساز باز کرتے ہیں اور صحافت کی آزادی کو خطرے میں ڈالتے ہیں۔ “میں ان کا بے نقاب کرنے کے لیے تیار ہوں، تاکہ صحافت کو ان کے چنگل سے آزاد کرایا جا سکے۔”

Comments are closed.