افغانستان کیلئے آگے بڑھنے کا واحد مثبت راستہ دوحہ معاہدے پر عمل درآمد میں ہے، طلال چوہدری
اسلام آباد
شمشاد مانگٹ
وزیرِ مملکت برائے داخلہ طلال چوہدری نے کہا ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان کشیدگی کا واحد تعمیری حل یہ ہے کہ کابل دوحہ معاہدے کے تحت افغان سرزمین کو دہشت گرد سرگرمیوں کے لیے استعمال ہونے سے مکمل طور پر روکے۔
واضح رہے کہ دفترِ خارجہ کے مطابق افغانستان کے ساتھ جاری کشیدگی کے دوران دوحہ میں وزیرِ دفاع خواجہ آصف کی سربراہی میں اعلیٰ سطحی وفد کے کابل کے نمائندوں کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں۔
طلال چوہدری نے کہا کہ پاکستان نے یہ مسئلہ سفارتی ذرائع اور فوج کے افغانستان کے ساتھ روابط کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کی تاہم اب تک یہ کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں۔
انہوں نے کہا کہ پہلی بار ایک تیسرے ملک کو شامل کیا گیا تاکہ افغانستان کو یہ باور کرایا جا سکے کہ اسے دوحہ معاہدے پر عمل کرنا ہوگا، جس کے تحت وہ اپنی سرزمین کو کسی بھی شخص یا گروہ کو دہشت گردی کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایک تیسرے ملک کے ذریعے بات چیت جاری ہے، دوحہ معاہدے کے مطابق آگے بڑھنے کا واحد مثبت راستہ یہی ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کو ان تمام عناصر کے لیے ممنوع قرار دے جو اسے دہشت گردانہ کارروائیوں کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا پاکستان افغان سرزمین سے ہونے والے حملوں کا جواب وہاں موجود دہشت گردوں کو نشانہ بنا کر دے گا، تو طلال چوہدری نے جواب دیا کہ حالات بہتر کیوں نہیں ہوتے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان (افغان) میں عزم اور نیت کی کمی ہے، خوارج کو وہیں تربیت اور سرپرستی دی جاتی ہے، اس کے بعد وہ پاکستان میں داخل ہوتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ اب افغانستان بھارت سے ہاتھ ملا رہا ہے اور مقبوضہ کشمیر کو بھارتی علاقہ تسلیم کر رہا ہے، ہم پہلے ہی کہہ رہے تھے کہ ‘یہ بھارت کے ایجنٹ ہیں’، اور اب انہوں نے خود اسے ثابت کر دیا ہے۔
وزیرِ مملکت برائے داخلہ کا کہنا تھا کہ پراکسی فورسز کو یاد رکھنا چاہیے کہ پاکستان اپنے مؤقف پر قائم اور اپنی عوام اور سرحدوں کے دفاع کے لیے جو بھی ضروری ہوگا، وہ کرے گا۔
انہوں نے سوال کیا کہ اگر دہشت گردی پاکستان کا اندرونی مسئلہ ہے، تو پھر یہ دہشت گرد افغانستان سے کیوں آتے ہیں؟ یہ بیان انہوں نے افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ تبصرے کے جواب میں دیا، جنہوں نے کہا تھا کہ دہشت گردی کسی ملک کا اندرونی معاملہ ہے۔

Comments are closed.