کچے کے ڈاکوؤں کا راج برقرار، قاری رفیق تاوان نہ ملنے پر قتل

کچے کے ڈاکوؤں کا راج برقرار، قاری رفیق تاوان نہ ملنے پر قتل

ریاست کے اندر ریاست ، ڈاکو عوام کے جان و مال کے مالک بن بیٹھے

مظفرگڑھ

شمشاد مانگٹ

جنوبی پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ سے اغوا ہونے والے قاری محمد رفیق کو تاوان ادا نہ کرنے پر بے رحمی سے قتل کر دیا گیا۔ مقتول کی لاش رسیوں سے بندھی حالت میں سندھ اور پنجاب کے سرحدی علاقے کچہ رونتی سے برآمد ہوئی ہے۔

قاری رفیق کے اہلِ خانہ کا کہنا ہے کہ اغواکاروں نے بھاری تاوان طلب کیا تھا جو مہیا نہ ہو سکا ۔ مقتول کی لاش ملنے پر علاقے میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی ہے۔

ذرائع کے مطابق کچے کے علاقے میں یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں بلکہ برسوں سے یہ علاقے ڈاکوؤں کے کنٹرول میں ہیں جہاں اغوا، قتل، تاوان، اور لوٹ مار معمول بن چکے ہیں۔ ان ڈاکوؤں نے ریاست کے اندر ایک اور ریاست قائم کر رکھی ہے، جہاں نہ پولیس کی عملداری ہے نہ قانون کی گرفت۔

علاقہ مکینوں اور سماجی حلقوں کی جانب سے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ سندھ اور پنجاب حکومتیں اب تک ان علاقوں میں کوئی مؤثر اور فیصلہ کن آپریشن کرنے میں ناکام رہی ہیں ۔ ہر سال اربوں روپے ڈاکوؤں کے خلاف آپریشن کے نام پر مختص کیے جاتے ہیں، لیکن ان کا کوئی حساب کتاب موجود نہیں ۔ صرف چند سو مسلح ڈاکوؤں نے سینکڑوں گھروں کو اجاڑ دیا ہے، بچوں کو یتیم اور عورتوں کو بیوہ کر دیا ہے۔

عوامی حلقوں نے حکومتِ سندھ، حکومتِ پنجاب، پولیس، رینجرز، وزارت داخلہ، اور دیگر اداروں کی کارکردگی پر شدید سوالات اٹھا دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر یہ ادارے بھی ان چند ڈاکوؤں کے سامنے بےبس ہیں تو ریاستی عملداری کا کیا مطلب رہ گیا؟

عوام نے مطالبہ کیا کہ کچے کے علاقے میں فول پروف فوجی آپریشن فوری طور پر شروع کیا جائے۔ ڈاکوؤں کے سیاسی پشت پناہ اور سہولت کاروں کو بے نقاب کیا جائے۔ فنڈز کی خردبرد پر نیب اور عدالتوں کی شفاف تحقیقات کرائی جائیں۔ شہداء کے لواحقین کو انصاف اور مالی امداد دی جائے اور پولیس و سول انتظامیہ کی کارکردگی کا سخت احتساب کیا جائے۔

واضح رہے کہ عوامی سطح پر یہ سوال شدت سے اٹھایا جا رہا ہے کہ اگر چند سو ڈاکو ریاست کے اداروں کو یرغمال بنا سکتے ہیں تو پھر یہ سوچنا لازم ہے کہ ریاست کی رٹ اور طاقت کہاں کھڑی ہے؟

Comments are closed.