تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بوجھ 35 فیصد تک، حکومت نے ریونیو بڑھانے کے لیے سخت فیصلے کیے ، ایف بی آر کا اعتراف

 تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بوجھ 35 فیصد تک، حکومت نے ریونیو بڑھانے کے لیے سخت فیصلے کیے ، ایف بی آر کا اعتراف

اسلام آباد

شمشاد مانگٹ

وفاقی بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے کہ حکومت نے مالی سال 2024-25 میں زیادہ آمدنی والے تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس بوجھ نمایاں طور پر بڑھا دیا ہے۔ ایف بی آر کی سالانہ رپورٹ کے مطابق، نئی ٹیکس پالیسی کے تحت اعلیٰ تنخواہ دار افراد پر انکم ٹیکس کی بلند ترین شرح 35 فیصد تک مقرر کی گئی ہے، جس سے اس طبقے کی خالص آمدنی میں واضح کمی واقع ہوئی ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فنانس ایکٹ 2024 کے ذریعے تنخواہ دار افراد کے لیے انکم ٹیکس سلیبز میں تبدیلی کی گئی ہے۔ ان تبدیلیوں کے تحت قابلِ ٹیکس آمدنی کی حد میں کمی جبکہ زیادہ آمدنی والے ملازمین کے لیے شرحِ ٹیکس میں اضافہ کیا گیا ہے۔ ایف بی آر کے مطابق، یہ اقدام حکومتی ریونیو بڑھانے اور مالی خسارے کو کم کرنے کے لیے ناگزیر قرار دیا گیا تھا۔

ٹیکس حکام نے وضاحت کی ہے کہ تنخواہ دار طبقہ ملک میں ٹیکس نیٹ کا اہم ستون ہے، اور محصولات میں خاطر خواہ اضافہ اسی طبقے کے تعاون سے ممکن ہوا۔ رپورٹ میں تسلیم کیا گیا کہ موجودہ مالی دباؤ کے باعث حکومت نے زیادہ کمائی والے افراد کو ٹیکس کے ذریعے زیادہ حصہ ڈالنے پر مجبور کیا۔

ماہرین معیشت نے اس پالیسی کو ”ریونیو پر مبنی بجٹ“ قرار دیتے ہوئے تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ مہنگائی، افراطِ زر اور بلند یوٹیلیٹی بلز کے موجودہ ماحول میں تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ ڈالنا معاشی دباؤ کو بڑھا دے گا۔ معروف ماہرِ معاشیات ڈاکٹر حفیظ پاشا کے مطابق، “35 فیصد تک ٹیکس کی شرح ترقی پذیر ملک کے لیے غیر معمولی ہے، جو متوسط طبقے کی قوتِ خرید کو متاثر کرے گی۔”

ایف بی آر کی رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ گزشتہ مالی سال کے دوران مجموعی طور پر تنخواہ دار طبقے سے ٹیکس وصولیوں میں 22 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا، جبکہ کاروباری طبقے کی جانب سے وصولیوں میں نسبتاً کم اضافہ ہوا۔

ذرائع کے مطابق، آئندہ بجٹ میں انکم ٹیکس پالیسی کا ازسرنو جائزہ لیا جا سکتا ہے تاکہ تنخواہ دار طبقے کو کچھ ریلیف فراہم کیا جا سکے۔ تاہم، حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ موجودہ مالی صورتحال میں فوری ٹیکس ریلیف ممکن نہیں۔

Comments are closed.