ٹرمپ کی ’معاہدہ ابراہیمی‘ میں توسیع کی پیشگوئی، سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کی شمولیت کی امید

ٹرمپ کی ’معاہدہ ابراہیمی‘ میں توسیع کی پیشگوئی، سعودی عرب سمیت دیگر ممالک کی شمولیت کی امید

واشنگٹن

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے توقع ظاہر کی ہے کہ مشرقِ وسطیٰ میں سفارتی پیش رفت کا بڑا دروازہ کھولنے والے ’معاہدہ ابراہیمی‘ میں جلد توسیع ہو گی، اور اس بار سعودی عرب سمیت مزید ممالک اس میں شامل ہو سکتے ہیں۔

فاکس بزنس نیٹ ورک کو دیے گئے ایک انٹرویو میں، جسے جمعہ کے روز نشر کیا گیا، ٹرمپ نے کہا “مجھے امید ہے کہ سعودی عرب بھی اس میں شامل ہوگا، اور میں چاہتا ہوں کہ دوسرے ممالک بھی اس میں شامل ہوں۔ میرا خیال ہے کہ جب سعودی عرب شامل ہوگا تو سب شامل ہو جائیں گے۔”

انہوں نے انکشاف کیا کہ انہوں نے بدھ تک ان ممالک کے ساتھ “بہت اچھی بات چیت” کی ہے جو اس معاہدے میں شامل ہونے پر رضامندی ظاہر کر چکے ہیں۔

ٹرمپ نے مزید کہا کہ “میرا خیال ہے کہ وہ سب بہت جلد شامل ہو جائیں گے۔”

یہ انٹرویو جمعرات کو ریکارڈ کیا گیا تھا، جو ان کی خارجہ پالیسی پر دوبارہ سرگرمی اور 2024 کے امریکی صدارتی انتخابات کی تیاریوں کا بھی عکاس سمجھا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ 2020 میں متحدہ عرب امارات اور بحرین نے ٹرمپ کی پہلی مدتِ صدارت کے دوران اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرتے ہوئے معاہدہ ابراہیمی پر دستخط کیے تھے۔ اس کے بعد سوڈان اور مراکش نے بھی اس عمل کا حصہ بن کر اسرائیل کو تسلیم کیا، جو ایک بڑی عرب-اسرائیل سفارتی تبدیلی تصور کی جاتی ہے۔

ٹرمپ نے حالیہ دنوں میں غزہ کی پٹی کے مستقبل پر بات چیت کے لیے مصر میں مسلم اور یورپی رہنماؤں کا اجلاس بلایا، جس کا مقصد نہ صرف غزہ پر جاری حملے کو روکنا بلکہ خطے میں وسیع تر امن قائم کرنا بتایا گیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ ان کی کوشش ہے کہ مزید ممالک اس امن عمل میں شامل ہوں اور حیران کن طور پر انہوں نے ایران اور اسرائیل کے درمیان ممکنہ امن معاہدے کی تجویز بھی پیش کی۔ ٹرمپ کے مطابق “مجھے لگتا ہے ایران امن چاہتا ہے۔”

انہوں نے یہ رائے بھی دی کہ اگر خطے کے بڑے کھلاڑی شامل ہو جائیں تو یہ عمل مشرقِ وسطیٰ کے دیرینہ تنازعات کے حل کی طرف بڑھ سکتا ہے۔

تجزیہ نگار کے مطابق ٹرمپ کے اس بیان کو بین الاقوامی سطح پر ایک اہم سفارتی اشارہ سمجھا جا رہا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب مشرق وسطیٰ ایک بار پھر غزہ تنازع اور ایران-اسرائیل کشیدگی کے باعث عالمی توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے۔ سعودی عرب کی ممکنہ شمولیت اس معاہدے کو نہ صرف مزید تقویت دے سکتی ہے بلکہ اسلامی دنیا میں اسرائیل کی قبولیت کے دروازے بھی کھول سکتی ہے۔

Comments are closed.