غزہ جنگ کے دو سال: شرم الشیخ میں اسرائیل و حماس کے درمیان مذاکرات، فلسطینی ریاست کے امکان پر وائٹ ہاؤس کا نرم مؤقف
ڈھاکہ / قاہرہ
7 اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والی غزہ کی تباہ کن جنگ کو دو سال مکمل ہو گئے ہیں۔ اس عرصے کو غزہ کے باسیوں نے ’’جہنم‘‘ سے تشبیہ دی ہے، جہاں روزانہ کی بنیاد پر بمباری، محاصرے اور انسانی المیے نے زندگی کو مفلوج کر دیا ہے۔
ان ہی تباہ کن حالات میں ایک اہم سفارتی پیش رفت سامنے آئی ہے، جب اسرائیل اور حماس کے وفود نے مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں بالواسطہ مذاکرات کا آغاز کیا۔ ان مذاکرات سے امریکہ کو امید ہے کہ شاید غزہ کی طویل اور خونی جنگ کو ختم کرنے کی راہ ہموار ہو سکے گی۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایک حیران کن قدم میں فلسطینی ریاست کے قیام کو براہِ راست مسترد نہ کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ پیر کے روز امریکی پریس سیکریٹری کیرولائن لیوٹ نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ اگر حماس اقتدار چھوڑ کر ایک عبوری ٹیکنوکریٹک حکومت کو ذمہ داری سونپنے پر راضی ہو جائے، تو فلسطینی ریاست کے قیام پر غور کیا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ ایک نازک معاملہ ہے، اور فی الحال وہ جاری تکنیکی بات چیت سے آگے نہیں بڑھنا چاہتیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمیں امید ہے اور توقع ہے کہ یہ دنیا کے سب سے بڑے امن معاہدوں میں سے ایک ہوگا، اور ٹرمپ انتظامیہ اس مقصد کے لیے انتھک محنت کر رہی ہے۔
مذاکرات میں کئی اہم اور متنازع امور زیر بحث ہیں، جن میں شامل ہیں: اسرائیلی افواج کا غزہ سے مکمل انخلا، حماس کا غیر مسلح ہونا، یرغمالیوں کی واپسی اور قیدیوں کا تبادلہ، اور مستقبل کی فلسطینی حکومت کی نوعیت۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر بیان میں کہا کہ مذاکرات کے پہلے مرحلے کی تکمیل اسی ہفتے متوقع ہے، اور انہوں نے تمام فریقین پر زور دیا کہ وہ تیزی سے کام کریں۔ تاہم فلسطینی اور مصری ذرائع کا کہنا ہے کہ معاملات کی پیچیدگی کے باعث یہ مذاکرات کئی دنوں تک جاری رہ سکتے ہیں۔
فلسطینی گروہوں کو خدشہ ہے کہ اسرائیل ممکنہ طور پر تمام یرغمالیوں کی بازیابی کے بعد مذاکرات ختم کر دے گا، جس سے جنگ بندی کا عمل سبوتاژ ہو سکتا ہے۔ حماس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ وہ تمام قیدیوں (زندہ اور مردہ) کے تبادلے، اسرائیلی انخلا، اور مستقل جنگ بندی جیسے معاملات پر واضح ضمانتیں چاہتی ہے۔
ایک فلسطینی اہلکار نے بتایا کہ ماضی میں بھی اسرائیل نے وعدے پورے نہیں کیے، اور یہی رویہ ایک بڑی رکاوٹ بن سکتا ہے۔ مذاکرات میں شامل ایک اور ذریعے نے کہا کہ بعض لاشوں کی بازیابی ایک مشکل مرحلہ ہو سکتی ہے، کیونکہ وہ جنگی علاقوں میں دفن ہیں اور انہیں نکالنے کے لیے وقت درکار ہوگا۔
اسرائیل اور ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے یہ مطالبہ سامنے آیا ہے کہ حماس غیر مسلح ہو جائے۔ تاہم حماس کا کہنا ہے کہ جب تک اسرائیل قبضہ ختم نہیں کرتا اور ایک آزاد فلسطینی ریاست قائم نہیں ہوتی، تب تک وہ ہتھیار نہیں ڈالے گی۔
حماس کے ایک نمائندے نے رائٹرز کو بتایا کہ اگر ہم غیر مسلح ہو جائیں تو اسرائیل ہمیں ختم کرنے کی کوشش کرے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ طاقت کے توازن کے بغیر مذاکرات بھی غیر مؤثر ہو جاتے ہیں۔
اگرچہ امریکا اور دیگر ثالث ممالک ایک تاریخی امن معاہدے کی امید رکھتے ہیں، لیکن دونوں فریقوں کے درمیان عدم اعتماد، جنگی نقصانات، اور سیاسی اہداف مذاکرات کو کامیاب بنانے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ جب تک بنیادی انسانی حقوق، خود مختاری، اور سیاسی خود ارادیت جیسے مسائل کا حل نہیں نکالا جاتا، جنگ بندی محض وقتی سکون فراہم کر سکتی ہے، مستقل امن نہیں۔
واضح رہے شرم الشیخ میں جاری حالیہ مذاکرات، غزہ کی دو سالہ بربادی کے بعد امید کی ایک کرن ضرور ہیں۔ تاہم امن کے اس سفر میں کئی رکاوٹیں حائل ہیں، جنہیں عبور کیے بغیر کوئی دیرپا حل ممکن نہیں۔
Comments are closed.