قبرستان میں ”اَن کھلا گلاب“

اٹک، جہلم، چکوال اور تلہ گنگ کے اضلاع غازیوں اور شہیدوں کی سرزمین کہلاتے ہیں جہاں غازی اور شہید ہر نئے روز بڑھتے چلے جا رہے ہیں۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں ”انگریز نے ان اضلاع کو ”سولجر بریڈنگ“ کا نام دیا تھا اس لئے ان بارانی علاقوں میں آج تک صنعتیں نہیں لگائی گئیں تاکہ یہ لوگ پیشہ سپہ گری کو خیر باد نہ کہہ دیں“۔
بہترین نظم و ضبط اور اعلیٰ پیشہ وارانہ صلاحیتیں جہاں ہماری افواج کا طرہئ امتیاز ہیں وہاں آج بھی پاک فوج ملک کا بہترین عظیم ادارہ ہے جس میں صوبائیت، لسانیت یا فرقہ پرستی کا نام نشان نہیں۔ فوج میں بھرتی ہونے والے جوان اور افسران بلوچستان کو اپنا گھر سمجھتے ہیں کیونکہ ہر فوجی کی پہلی تربیت گاہ وہی ہوتی ہے۔ معروف صحافی و مصنف جناب جبار مرزا نے سانحہ آرمی پبلک سکول کے موقع پر اپنے جذبات کو اشعار کے قالب میں یوں ڈھالا تھا:
یاد تو ان کو تب ہم کرتے
بھول گئے جب ان کو ہوتے
جو بھی علم کا طالب ہو گا
دہشت گرد پہ غالب ہو گا
خون میں جو نہائے ہوئے ہیں
یونیفارم میں آئے ہوئے ہیں
تم ریزہ ریزہ جسم تو جوڑو
کل کیا گزری اس کو چھوڑو
نام وطن کا اونچا کر گئے
کیسے کہہ دوں وہ مر گئے!
16مارچ2024ء کا دن مادرِ وطن کے لئے ایک اور آزمائش کا دن تھا جب شمالی وزیرستان میں پاک فوج کی چوکی کو دہشت گردوں نے بارود سے بھری گاڑی کے ذریعے نشانہ بنایا جس میں لیفٹیننٹ کرنل اور کیپٹن سمیت سات سپوتوں نے شہادت کا جام پیا انہی میں تلہ گنگ کے معروف قصبہ ٹمن کا 23سالہ نوجوان کپتان محمد احمد بدر شہید بھی تھا۔ راولپنڈی میں شہداء کے نماز جنازہ میں صدرمملکت آصف علی زرداری اور آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے شرکت کی جبکہ کیپٹن احمد بدر شہید کے آبائی گاؤں ٹمن میں نماز جنازہ کی ادائیگی کے بعد شہید کے والد کرنل (ر) بدرالدین نے جس حوصلے اور ہمت کا مظاہرہ کیا اس سے پاک فوج کے افسران و جوانوں کو تو مزید حوصلہ ملا مگر وطن دشمنوں اور دہشت گردوں کی حمایت میں سوشل میڈیا پر بکواس کرنے والوں کو دھچکا ضرور لگا ہو گا کیونکہ ہم شہیدوں کی نعشوں پر روتے نہیں بلکہ ہمارے عزم و یقین اور زیادہ پختہ ہو جاتے ہیں۔ کیپٹن احمد پانچ بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا ذرا اس بہادر نوجوان کی ماں سے تو پوچھئے جو اپنے بیٹے کے سر پر سہرا دیکھنا چاہتی ہو گی۔۔۔ ان بہنوں سے پوچھیں جو اکلوتے بھائی کے عید پر گھر آنے کی منتظر ہوں گی اور کیا کیا فرمائشیں بھائی سے کر رکھی ہوں گی۔۔۔ ٹمن کے اسی قبرستان میں 65ء کی جنگ کے ہیرو غازی ایئر مارشل نور خان بھی مٹی کی چادر اوڑھے سو رہے ہیں اور اب اسی مٹی کے ایک اور سپوت نے مادرِ وطن کی لاج رکھی اور اگلے مورچوں پر اپنی جان ارضِ وطن پر قربان کر دی۔۔۔وہ اَن کھلا گلاب تھا جس نے اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر دہشت گردوں کے خلاف جنگ میں اپنی جان جانِ آفریں کے سپرد کی ہے۔ میرے آبائی علاقہ کے قبرستان ایسے ہزاروں نوجوانوں سے بھرے پڑے ہیں۔ بقول محسنؔ نقوی:
عشق منزل کے رخ کا غازہ ہے، عقل رستے کو صاف کرتی ہے
زندگی پر جو لوگ چھا جائیں موت ان کا طواف کرتی ہے!
ماتم ہے ان قوتوں اور گمراہ لوگوں پر جو شہیدوں کو بھی نہیں بخشتے۔۔۔ان سات شہادتوں پر جس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے ٹرولنگ کی گئی اور خصوصاٌ بیرون ملک مقیم پاکستانی اس غلیظ مہم کا حصہ بنے۔ موت تو برحق ہے اور مرنا ہر ایک نے ہے جس طرح کیپٹن احمد کے والد کرنل بدر کہہ رہے تھے کہ وہ مر گیا لیکن شان سے مرا اور وہی شان سلامت رہتی ہے! ان سطور کے ذریعے ان مردہ ضمیروں سے پوچھتا ہوں کہ وہ بیرون ممالک میں رہائش پذیر ہیں اور تمہیں پاک فوج سے اتنی نفرت ہے ذرا ہمت کر کے اس ملک کی فوج کے خلاف ایک لفظ سوشل میڈیا پر لکھ کر دکھاؤ تو وہ تمہاری نسلوں کو بھی زندہ درگور کردیں گے۔ نفرت اور تقسیم میں اتنے اندھے نہ ہو کہ اخلاقیات کوبھی بھول جاؤ۔۔۔
موت جب چال چل رہی ہو گی
زندگی ہاتھ مل رہی ہو گی!
Comments are closed.