محاسبہ
ناصر جمال
ہم لوگ تو خوشبو کی طرح ہیں ترے اطراف
ہم سادہ دلوں سے کوئی سیاست نہیں کرنا
وہ خود بھی گرفتارِ مکافاتِ عمل ہے
تم اُس کی طرف اُنگشتِ شہادت نہیں کرنا
(سلیم کوثر)
مولانا فضل الرحمٰن ’’آن فائر‘‘ ہیں۔ انھوں نے عدم اعتماد میں جنرل فیض کے نام کی تصحیح کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ نہیں، جو اس وقت ڈی۔ جی (آئی۔ ایس۔ آئی) تھے۔ وہ جنرل باجوہ کے ساتھ تھے۔ یہ پہلے سے بڑا انکشاف ہے۔اسٹیبلشمنٹ کے”سیاست سے علیحدگی“ کے تمام دعوے مولانا نے زمین بُوس کردیئے ہیں۔
انھوں نے اپنے دوست آصف زرداری کے بارے میں کہا ہے کہ ’’وہ مفاہمت نہیں، مفادات کا بادشاہ ہے۔‘‘
مولانا نے مزید کہا ہے کہ جو اپنے حلف کا احترام نہیں کرتے۔ ان کی بات کی ہماری نظر میں کوئی اہمیت نہیں۔ کیا یہ فوج میں آتے وقت سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا حلف نہیں دیتے۔ پھر بھی مداخلت کرتے ہیں۔ ہم سے کس بات کا حلف طلب کرنے کا کہتے ہیں۔
ایک بات طے ہے کہ مولانا، شدید ناراض ہیں۔ اور وہ بپھرے ہوئے ہیں۔ جنرل باجوہ کو انھوں نے جنرل فیض کی موجودگی میں، آرمی ہائوس میں سخت ترین گفتگو کی تھی۔ جنرل باجوہ بھی بوکھلا گئے تھے۔ بیگم صاحبہ اندر آگئیں۔ انھوں نے ماحول کو ٹھنڈا کیا تھا۔ واپسی پر خوشبوئوں کے تحفے بھی دیئے گئے تھے۔ مولانا نے جنرل باجوہ کو کہا تھا کہ ’’وہ مرنے سے نہیں ڈرتے، جبکہ مرنے سے پہلے مارنے پریقین رکھتے ہیں۔ انھوں نے یہ جملے ’’ہائیپر“جنرل باجوہ کی گفتگو کے جواب میں کہے اور جنرل فیض کو کہا کہ وہ بے عزتی کروانے نہیں آئے۔ یہ سب کچھ آج، سب کو پتا ہے۔
ابھی تک اندر کی بات باہر نہیں آئی کہ ٹھنڈے مزاج کے مولانا فضل الرحمٰٓن اتنے شدید غصے میں کیوں ہیں۔
انھوں نے غزیدہ فاروقی کے انٹرویو میں جیسے موصوفہ کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔ وہ بے مثال ہے۔ ’’پیرا شوٹر‘‘ صحافیوں کا یہی المیہ ہے۔ وہ نہ پڑھتے ہیں اور نہ ہی سمجھتے ہیں۔ ٹر، ٹر، ان کا ہتھیار ہے۔ جو مولانا جیسے زیرک سیاستدانوں پر نہیں چلتا۔ فیلڈ جرنلسٹ سامنے ہو تو مولانا اور صحافی دونوں یہی محتاط رہتے ہیں۔ ’’لُوز بال‘‘ کا دونوں تصور نہیں کرسکتے۔
قارئین
انتخابات میں دھاندلی اور مینڈیٹ کے چرانے کے خلاف پورے ملک میں احتجاج جاری ہے۔ مگر سندھ میں جامشورو، حیدر آباد بائی پاس پر جی۔ ڈی۔ اے کے ’’گرینڈ شو‘‘ نے، اینٹی اسٹیبلشمنٹ اور انتخابات میں دھاندلی کے خلاف جاری احتجاج میں نئی روح پھونک دی ہے۔
قلم کار کی جی۔ ڈی۔ اے کے سیکرٹری جنرل سردار عبدالرحیم سے الیکشن کے تیسرے روز بات ہوئی تھی۔ وہ انتخابی دھاندلی پر سخت ردعمل دینے پر یقین رکھتے تھے۔انھوں نے کہا کہ آپ صرف تین چارروز انتظار کریں۔ ان کا خیال تھا کہ پیر پگارہ نکلیں گے۔ پیر پگارہ کی پریس کانفرنس ، انتہائی کامیاب رہی۔انھوں نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ جاری یکطرفہ محبت پر سنگدل محبوب سے بیزاری کا نہ صرف اعلان کیا۔ بلکہ سندھ کی تاریخ کا سب سے بڑا اجتماع کرکے، پورے سندھ میں، ایک نئی آگ لگا دی ہے۔ انھوں نے اسٹیبلشمنٹ اور آصف زرداری کو پیغام دیا ہے کہ ’’ وہ ابھی تک سندھ کو فتح نہیں کرسکے۔ مزاحمت جاری رہے گی۔‘‘
پیر پگارہ نے اجتماع سے اپنے خطاب میں کہا کہ اگر ان انتخابات کے نتیجے میں حکومت بنی تو، دس ماہ سے زیادہ نہیں چلے گی۔ فوج نے سب کو آزما لیا ہے آزمانے کو اب کیا بچا ہے۔ ہوسکتا ہے۔ ایمرجنسی یا مارشل لاء لگ جائے۔ یہی عدلیہ ، اُس کو ”لیگل کور“ دے گی۔ انھوں نے کہا کہ الیکشن سے ڈھائی ماہ پہلے، نتیجہ فروخت ھو چکا تھا اور پے منٹ بھی ہوچکی تھی۔ انھوں نے کہا کہ فوج ہماری ہے۔ اُس کے سوا کوئی وفاق کو نہیں سنبھال سکتا۔ ہمارا احتجاج فوج نہیں الیکشن پر ڈاکہ ڈالنے والوں کے خلاف ہے۔ آج الیکشن نے ثابت کر دیا کوئی وفاقی سطح کا لیڈر نہیں، سب صوبائی لیڈر ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ عمران خان کو چور نہیں سمجھتے۔ ان سے غلطی ہوئی۔ اگر عمران خان چور ہے تو ہم سب بھی چور ہیں۔
قارئین
جی۔ ڈی۔ اے میں اور فنکشنل لیگ میں جان ڈالنے میں جی ڈی اے کے سیکرٹری جنرل سردار عبدالرحیم کا بہت بڑا کردار ہے۔ انھوں نے پیر صاحب کی مدد سے جی۔ ڈی۔ اے کو برقرار رکھا۔ ایک متحرک سیاست کی۔ وہ اپنی پارٹی کو زبردست حکمت عملی کے تحت، ڈرائنگ روم سے میدان میں لیکر آئے ہیں۔ پہلی بار کراچی سے انھوں نے ہر سیٹ پر اپنے امیدواروں کو انتخاب لڑایا۔ یہی سردار رحیم کبھی ن لیگ کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل ہوا کرتے تھے۔ سخت ترین وقت میں ن لیگ کو سندھ میں انھوں نے زندہ رکھا۔اور ذاتی جیب سے کروڑوں روپے خرچ کیے۔کبھی کسی سے ایک پائی نہیں لی۔
وہ اصولی موقف پر ن لیگ کو ”اقتدار“ میں چھوڑ گئے۔ پلٹ کر نہیں دیکھا۔ گذشتہ روز کے اجتماع کے بعد، سندھ میں سیاسی توازن یکطرفہ نہیں رہا۔ سردار رحیم کو تین سال قبل پیپلز پارٹی میں شمولیت کی آفر کی گئی تھی۔ ان کی اس ضمن میں آصف زرداری سے ملاقات بھی ہوئی۔اصف زرداری نے انہیں کہا کہ میں اپ کو دو ارب روپے کے فنڈز دیتا ہوں ہمارے لیے محمود اباد والا حلقہ بنائیں۔اور ساتھ ہی ہنستے ہوئے کہا مجھے معلوم ہے اپ ایک پائی کی کرپشن بھی نہیں کریں گے۔ اپنی جیب سے 50 کروڑ لگا دیں گے۔ اصف زرداری کے سردار رحیم کے لیے یہ کمپلیمنٹ ،بہت اہمیت رکھتے ہیں۔جو اس درویش اور قلندر شخص کی شخصیت کو واضح کرنے کے لیے انتہائی موضوع ہے۔
پی۔ ٹی۔ آئی نے اسلام آباد کے پنج ستارہ ہوٹل میں فارم 45 کے ساتھ، انٹرنیشنل اور نیشنل میڈیا کے ساتھ طویل، میراتھون پریس کانفرنس کی۔ عام انتخابات سے پہلے اور بعد کا، تحریک انصاف کا یہ پہلا بڑا شو تھا۔
پاکستان کا ڈرا، سہما اور ’’مینیجڈ میڈیا‘‘ بھی یہ پریس کانفرنس دکھانے پر مجبور ہوگیا۔ جبکہ ایک مخصوص چینل تو ابھی تک بانی پی۔ ٹی۔ آئی لکھ رہا ہے۔ اور عمران خان کو دکھا بھی نہیں رہا۔
مگر حالات تیزی سے پلٹا کھا رہے ہیں۔ اسکرپٹ کے مطابق میاں نواز شریف کی ’’ری انٹری‘‘ کروائی گئی ہے۔ ان کی ’’سیاسی پلیٹلیٹس‘‘ کیونکہ بہت بُرے طریقے سے گر گئی تھیں۔ انھیں بحال کرکے، ری لانچ کیا گیا ہے۔ جہاں انھیں، سیاسی اسکرپٹ کے مطابق مرکز میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا بادل نخواستہ مشورہ لانچ کیا گیا ہے۔ (ن) لیگ نے اگر یہی کچھ کرنا تھا تو پورے ملک میں سیاسی’’اغوا برائے تاوان‘‘ کا اتنا بڑا، جھنجھٹ کھڑا کرنے اور بدنامی کمانے کی کیا ضرورت تھی۔ اُسے لوٹا کریسی کے داغ، یہ کہہ کر لگانے کی کیا ضرورت ھی کہ ’’داغ تو اچھے ہوتے ہیں‘‘
ن لیگ پلیٹلیٹس سے لیکر مینڈیٹ چرانے تک کے ڈراموں میں ”سیاسی آسکر ایوارڈ“ جیت چکی ہے۔ وہ سیاسی درجہ حرارت نیچے جانے کا بڑی شدت سے انتظار کررہی ہے۔ پہلے فضل الرحمٰن، اب جی۔ ڈی۔ اے اس درجہ حرارت کو بہت اوپر لے گئے ہیں۔ قوم پرست پہلے ہی، اس آگ کو جلائے بیٹھے ہیں۔ اتنی جلدی چیزیں ٹھیک نہیں ہونے والیں۔
گذشتہ تین چار روز میں بطور خاص، سیاسی محاذ پر جو گرما گرمی ہے۔ میڈیا میں، ملک اور بیرون ملک آگ لگی ہوئی ہے۔ اس نے، پی۔ ٹی۔ آئی کو سب سے زیادہ فائدہ دیا ہے۔ اور جس طرح جینے والے اراکین کی وفاداریاں تبدیل کروائی جارہی ہیں۔ اُس نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ جو بھی اسکرپٹ رائٹر ہے۔ وہ بہت ہی نکما اور عقل و شعور سے ’’پیدل‘‘ ہے۔
اسکرپٹ رائٹر کی جلدبازی نے (ن) لیگ، اسٹیبلشمنٹ اور اتحادیوں کی گیم تباہ کردی ہے۔
فارم 47 کی واردات ناکام ہوچکی ہے۔ فارم 45 سیدھی، سیدھی، شکست ہے۔ عدلیہ اور بیورو کریسی نے عزت سادات تک گنوالی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ اس بار بُری طرح بے نقاب نہیں ہوئی۔ بلکہ مکمل ناکام ہوچکی ہے۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ، اسٹیبلشمنٹ، (ن) لیگ اور آصف زرداری کے پاس آپشن محدود ہوتے جارہے ہیں۔ یہ فارم 45 پر جاتے ہیں تو مرتے ہیں۔ دوبارہ انتخاب میں جاتے ہیں تو تباہ و برباد ہوجائیں گے۔ پی۔ٹی۔ آئی اتحاد کے لئے، دو تہائی اکثریت معمولی سی بات ہوگی۔ اب عمران خان کو آپ اندر نہیں رکھ سکیں گے۔ بیٹ کے نشان کی واپسی، ناگزیر ہوگی۔ الیکشن کمیشن اور نگران حکومتوں کو جانا ہوگا۔ ایسی صورتحال میں تحریک انصاف، کا سیاسی جماعتوں سے اتحاد، یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ، مخالفوں کے لئے تباہ کن ہوگی۔ بھاری مینڈیٹ سو فیصد آئے گا۔ پھر ہوسکتا ہے کہ (ن) لیگ اور اتحادی دس سیٹوں پر بھی نہ ہوں۔
قارئین
پاکستانی سیاست، اپنی تاریخ کی سب سے دلچسپ جگہ پر کھڑی ہے۔ جہاں اسٹیبلشمنٹ اور لیگی اتحاد کے پاس زیادہ وقت اور مواقع نہیں ہیں۔ وہ پیچھے ہٹتی ہے تو مرتی ہے۔ نہیں ہٹتی تو تباہی کا سامنا کرے گی۔
طاقت کا استعمال، بدترین نتائج دے چکا ہے۔ مزید استعمال، لوگوں میں اشتعال پیدا کررہا ہے۔ جبکہ انتشار اور معاشی تباہی ملک کا مقدر ہوگی۔
ابھی بھی وقت ہے۔ شاہد خاقان عباسی کی بات مان لیں۔ اپنی انائیں، ایک طرف رکھ کر، بیٹھ جائیں۔ اپنی آئینی حدود کو مان لیں۔ الیکشن ناگزیر ہے تو متناسب نمائندگی پر کروالیں۔ خرچ کم ہوگا۔ لوٹا ازم کا خاتمہ ہوجائے گا۔ تمام پارٹیوں کا حقیقی مینڈیٹ سامنے آجائے گا۔ حلقے کی سیاست اور ممبران اسمبلی کی بلیک میلنگ ختم ہوجائے گی۔ پارٹی اور جمہوریت مضبوط ہوگی۔ اسٹیبلشمنٹ کو باعزت ایگزٹ مل جائے گا۔ اگر، آپ یہ سب کچھ نہیں کرسکتے تو، پھر سب کو جانا ہوگا۔
یہ شہر سحر زدہ ہے صدا کسی کی نہیں
یہاں خود اپنے لیے بھی دعا کسی کی نہیں
خزاں میں چاک گریباں تھا میں، بہار میں تُو
مگر یہ فصلِ ستم آشنا کسی کی نہیں
سب اپنے اپنے فسانے سناتے جاتے ہیں
نگاہ یار مگر ہم نوا کسی کی نہیں
میں آج زد پہ اگر ہوں تو خوش گمان نہ ہو
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
فرازؔ اپنی جگر کاویوں پہ ناز نہ کر
کہ یہ متاع ہنر بھی سدا کسی کی نہیں
Comments are closed.