”وائٹ گولڈ ”ضائع ہوتی قومی دولت

”وائٹ گولڈ ”ضائع ہوتی قومی دولت

ڈاکٹرعلمدار حسین ملک

پاکستان دنیا کے ان چند بڑے ممالک میں شامل ہے جہاں دودھ کی پیداوار ریکارڈ سطح پر ہے۔ سالانہ پیداوار تقریبا 65 سے 67 ارب لیٹر ہے، جو کسی بھی ترقی یافتہ ملک کے لیے باعثِ رشک ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے اس نعمت کو قومی دولت میں بدلا؟ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہم نے اپنی بدانتظامی اور غفلت کے باعث اس دودھ کو وائٹ گولڈ بنانے کے بجائے سفید بوجھ بنا دیا ہے۔ ملک میں تقریبا 90 سے 97 فیصد دودھ اب بھی خام اور غیر پاسچرائزڈ حالت میں فروخت ہو رہا ہے۔ نہ کوئی منظم کولڈ چین ہے، نہ موثر ٹرانسپورٹ، نہ ہی کسانوں کے لیے سہولتیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ 20 سے 25 فیصد دودھ یعنی 13 سے 17 ارب لیٹر سالانہ ضائع ہو جاتا ہے۔ اگر فی لیٹر قیمت 220 روپے لگائی جائے تو یہ نقصان 2.9 کھرب سے 3.7 کھرب روپے سالانہ بنتا ہے، یعنی تقریبا 10 سے 13 ارب ڈالر کا سیدھا سیدھا زیاں۔ یہ وہ رقم ہے جس سے پاکستان کا بجٹ خسارہ کم ہو سکتا ہے، صحت اور تعلیم کے شعبے بدل سکتے ہیں، اور لاکھوں نوکریاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔کراچی کی بھینس کالونی اس المیے کی سب سے بڑی علامت ہے، جہاں معمولی ہڑتال یا راستے کی بندش کے نتیجے میں روزانہ ہزاروں لیٹر دودھ سڑکوں پر بہہ جاتا ہے۔ یہی حال خیبرپختونخوا اور دیہی سندھ کا ہے، جہاں نہ سڑکیں بہتر ہیں، نہ کولنگ مراکز۔ کسان مجبور ہیں کہ دودھ اونے پونے داموں بیچیں جبکہ پیکڈ ملک کمپنیاں اس کمزوری کا بھرپور فائدہ اٹھا کر منڈی پر قبضہ جمائے بیٹھی ہیں۔ اب ذرا ہالینڈ کو دیکھ لیجیے۔ وہاں سالانہ دودھ کی پیداوار بمشکل 15 ارب کلوگرام ہے جو پاکستان سے کہیں کم ہے مگر وہی ہالینڈ سال 2023 میں 10.8 ارب ڈالر مالیت کی ڈیری مصنوعات ایکسپورٹ کر رہا ہے۔ وجہ صاف ہے: منظم کولڈ چین، اعلی معیار، سخت قوانین پر عمل، اور کسانوں و صنعت کے درمیان شراکت داری۔ ہالینڈ دودھ کو پنیر، مکھن، پاڈر اور دیگر مصنوعات میں بدل کر دنیا بھر کی منڈیوں پر چھایا ہوا ہے۔ اس کے برعکس پاکستان کی ڈیری ایکسپورٹس اتنی معمولی اور نہ ہونے کے برابر ہیں کہ ان کا ذکر بھی عالمی رپورٹوں میں نہیں ملتا۔یہ بھی افسوسناک حقیقت ہے کہ بین الاقوامی ادارے، جو پاکستان کے ڈیری سیکٹر کی بہتری کے نام پر سرگرم ہیں، اصل مسائل کے حل کی بجائے صرف فائیو اسٹار ہوٹلوں میں سیمینارز اور ورکشاپس کرنے تک محدود ہیں۔ ان تقریبات میں اکثر ایسے لوگ شریک ہوتے ہیں جنہیں لائیوسٹاک اور ڈیری سیکٹر کے الف ب کا بھی علم نہیں ہوتا۔ عملی اقدامات، کسانوں کی براہِ راست تربیت، کولڈ چین اور ویلیو ایڈیشن پر سرمایہ کاری کے بجائے فوٹو سیشنز، لمبی تقاریر اور رپورٹس پر زور دیا جاتا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اربوں روپے خرچ ہونے کے باوجود مسائل جوں کے توں ہیں اور کسان آج بھی اپنی محنت کا پھل ضائع ہوتے دیکھ رہے ہیں۔یہ صرف کسانوں کی ناکامی نہیں، یہ براہِ راست ریاستی ناکامی ہے۔ وفاقی اور صوبائی محکمے دہائیوں سے منصوبے بناتے ہیں مگر ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ کوئی طویل المدتی حکمتِ عملی نہیں، سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے، قوانین کمزور ہیں اور صنعت کے ساتھ شراکت داری کا فقدان ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ ڈیری سیکٹر کی اہمیت کو تسلیم کرتے ہوئے اس کے لیے وہی فنڈز مختص کرے جو اس کے قومی معیشت میں کردار کے مطابق ہوں۔ آج دودھ اور لائیوسٹاک پاکستان کی جی ڈی پی میں اربوں روپے کا حصہ ڈال رہے ہیں، مگر بدلے میں سرکاری سرمایہ کاری نہ ہونے کے برابر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس شعبے کی بقا اور ترقی کا واحد راستہ یہی ہے کہ بجٹ میں اس کے لیے خاطر خواہ فنڈز مختص کیے جائیں اور طویل المدتی منصوبے بنائے جائیں۔ اگر ایسا نہ ہوا تو دودھ کی یہ وسیع پیداوار ہمیشہ ضائع ہوتی رہے گی اور وائٹ گولڈ کبھی قومی دولت میں تبدیل نہ ہو سکے گا۔پاکستان میں دودھ کی پیداوار کا سب سے خاموش مگر سب سے اہم کردار دیہی خواتین ادا کر رہی ہیں۔ صبح سویرے جانوروں کی دیکھ بھال، دودھ دوہنا، خوراک کا انتظام اور مقامی سطح پر دودھ کی فروخت یہ سب زیادہ تر خواتین کے ذمے ہوتا ہے۔ مگر بدقسمتی سے انہی خواتین کو سب سے کم فائدہ ملتا ہے کیونکہ منڈیوں، کولڈ چین اور ویلیو ایڈیشن تک ان کی رسائی نہیں ہے۔ اگر حکومت اور ادارے خواتین کو چھوٹے پیمانے پر کولنگ ٹینک، تربیت، اور ڈیری کوآپریٹوز میں شمولیت کے مواقع دیں تو یہ خواتین نہ صرف اپنی آمدنی بڑھا سکتی ہیں بلکہ اپنے خاندانوں کو غربت سے نکال کر معیشت میں عملی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ پاکستان میں غربت کے خاتمے اور پائیدار ترقی کا سب سے مثر راستہ یہی ہے کہ ڈیری سیکٹر کے ذریعے دیہی خواتین کو بااختیار بنایا جائے۔ یہی اصل سفید انقلاب ہوگا۔اصل طاقت صرف پیداوار میں نہیں بلکہ ویلیو ایڈیشن میں ہے یعنی دودھ کو پنیر، مکھن، دہی، پاڈر اور دیگر مصنوعات میں بدلنا۔ ماہرین کے مطابق اگر پاکستان اپنی سالانہ پیداوار کا صرف 10 فیصد بھی پروسیس کر کے برآمد کرے تو سالانہ 5 سے 6 ارب ڈالر کمائے جا سکتے ہیں۔ یہ ہدف ناممکن نہیں بلکہ صرف حکمتِ عملی اور عزم کا متقاضی ہے۔ لیکن افسوس یہ ہے کہ آزادی کے 78 سال بعد بھی پاکستان نے اس وائٹ گولڈ کی معیشتی اہمیت کو تسلیم نہیں کیا۔ جس وقت اسے غربت مٹانے، روزگار بڑھانے اور برآمدات کو وسعت دینے کا سب سے بڑا ذریعہ ہونا چاہیے تھا، ہم نے اسے بدانتظامی اور لاپرواہی کی نذر کر دیا۔ اگر آج بھی پالیسی سازوں نے فیصلہ کن اور جرات مندانہ اقدامات نہ کیے تو پاکستان ہمیشہ ایک دودھ پیدا کرنے والا مگر کبھی دودھ برآمد کرنے والا ملک نہیں بن پائے گا۔ یہ فیصلہ اب اور یہیں کرنا ہوگا ورنہ تاریخ ہمیں معاف نہیں کرے گی ایڈوائزر، یونیورسٹی آف ویٹرنری اینڈ اینیمل سائنسز (UVAS)، سوات ہیں )

Comments are closed.