اسلام آباد (شمشاد مانگٹ)مارکیٹ کمیٹی اسلام آباد میں بڑے پیمانے پر اختیارات سے تجاوز کرنے پر چیف کمشنر اسلام آباد انوار الحق نے چار افسران کیخلاف سخت ایکشن لے لیا جبکہ ڈائریکٹر ایگریکلچر نظر انداز کردیا گیا، تفصیلات کے مطابق سبزی منڈی اسلام آباد میں مارکیٹ کمیٹی اور ڈائریکٹر ایگریکلچر کے زیر نگرانی لوگوں کو بڑے پیمانے پر سی ڈی اے کی جگہ پر عارضی سٹال بنا کر دیئے جا رہے تھے ہر سٹال پر آنے والی لاگت تقریباً تیس ہزار روپے تھی لیکن شہریوں سے ایک لاکھ پندرہ ہزار فی کس وصول کیا جا رہا تھا اور اس کے علاوہ ایسی شکایات بھی سامنے آئی تھیں کہ دو سے تین لاکھ روپے لیکر کئی افغانیوں کو بھی سٹال الاٹ کردیئے گئے
اس سارے کھیل میں سبزی منڈی یونین کے اہم عہدیدار صفدرصدیق اور ایگریکلچر ڈیپارٹمنٹ کے لوگ شامل تھے صفدر صدیق جو کہ ماضی میں بھتہ خواری کے الزام میں جیل یاترا بھی کرچکے ہیں اس سارے گھنائونے دھندے کا مرکزی کردار یہی ہیں چیف کمشنر اسلام آباد نے میڈیا رپورٹ سامنے آنے کے بعد ایک انکوائری کمیٹی بنائی جس کی رپورٹ کی روشنی میں ڈپٹی ڈائریکٹر ایگریکلچر غفران شہزاد باجوہ کو ایڈمنسٹریشن رپورٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے جبکہ گریڈ سولہ کے اسسٹنٹ پروٹوکول آفیسر سرفراز احمد کو فوری طور پر آئی سی ٹی سے نکال کر ان کے اصل ادارے سینیٹ واپس بھیج دیا گیا ہے جبکہ مارکیٹ کمیٹی کے انسپکٹر عمر وقاص اور خالد کو تاحکم ثانی معطل کردیا گیا ہے
چیف کمشنر انوار الحق اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ آئی سی ٹی اور سی ڈی اے میں کسی صورت بھی کرپشن برداشت نہیں کرینگے لیکن آئی سی ٹی کے حلقوں کا کہنا ہے کہ انہوں نے اپنے پہلے ہی ایکشن میں ادھورا انصاف کیا ہے کیونکہ کرپشن کے اس دھندے کی جتنی ذمہ داری غفران باجوہ پر عائد ہوتی ہے جو ڈپٹی ڈائریکٹر ایگریکلچر ہیں اتنی ہی ذمہ داری ڈائریکٹر ایگریکلچر عاصمہ ثنااللہ کی ہے لیکن لوگوں کا کہنا ہے کہ چونکہ عاصمہ ثنا اللہ کے والد محترم سابق سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ رہ چکے ہیں اس لئے ان کو چھوڑ دیا گیا ہے اس کے علاوہ ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر (جنرل) رانا وقاص انور اور ڈائریکٹر لیبر اینڈ انڈسٹری مہرین بلوچ آئی سی ٹی کے دو ریسٹ ہائوسز پر قابض ہیں اور ان کے اپنے محلات کی شکل دیکر رہائش پذیر ہیں، ایک ریسٹ ہائوس ترلائی جبکہ دوسرا چک شہزاد واقع ہے، چیف کمشنر اسلام آباد کیلئے سب سے بڑا چیلنج یہ ہے کہ پاکستان کے نظام کے مطابق وہ چھوٹے ملازمین کو ہی رگڑا لگائیں یا بلاامتیاز کارروائیوں کو آگے بڑھائیں گے، واضح رہے کہ آئی سی ٹی کے حوالے سے مشہور ہے کہ چھپڑ سے بھینس نکالنا جتنا مشکل ہوتا ہے اتنا ہی مشکل آئی سی ٹی میں آئے ہوئے افسران کو نکالنا مشکل ہے ۔
Comments are closed.