ناکامی. کامیابی کا پہلا زینہ ہوتی ہے ہر تکلیف انسان کو سبق سکھاتی ہے بعض اوقات انسان ہار جاتا ہے جیسے صحرا میں رات کی تنہائی میں ایک مسافر جسے اپنی اواز سے ڈر لگتا ہے ہولناک سناٹے میں چیخ کی اواز ۔عذاب کا اعلان ہے جب کرنیں اپنیے سورج کو چاٹنے لگ جائیں جب شاخیں اپنے درخت کو کھا جائیں جب اعضاء اپنے وجود سے کٹ جائیں اپنی صورت اپنی صورت نہ رہے انسان اپنے ہی دیس میں خود کو پردیسی محسوس کرے اپنے گھر میں انسان خود کو مہمان تصور کرے جب سورج کی روشنی تاریکی میں بدل جائے زمانہ امن کا ہو مگر جنگ کا طبل بج رہا ہو۔۔۔۔۔۔. سقرات دنیائے فلسفہ کا عظیم اور جلیل المرتبت معلم جس نے پانچویں صدی قبل مسیح میں یونان میں مغربی فلسفہ کی بنیاد رکھی سقرات نے دو شادیوں کیں پہلی بیوی ایتھنز میں ایک پلیگ کی بیماری پھیلی اور وہ اس دنیا سے رخصت ہو گئی سقرات نے دوسری شادی کی۔ اس دوسری شادی کی سقرات کی زندگی میں بہت بڑی اہمیت تھی وہ انتہائی تیز مزاج غصیلی اور منہ پھٹ تھی سقرات کے دوست اور عزیز و اقارب کہا کرتے تھے کہ کبھی اس نے سقراط کے ساتھ سیدھے منہ بات ہی نہیں کی تھی مگر سقرات اس کی جلی کٹی باتیں سن کر ہمیشہ ہنس دیا کرتا تھا ایک بار سقرات کے ایک ساتھی نے اس سے پوچھا تمہاری بیوی زمانے بھر کی تند مزاج اور منہ پھٹ عورت ہے اس کے ساتھ کیسے گزارا ہوتا ہے سقرات نے ہنس کر جواب دیا میں اس کے ساتھ لوگوں کو سدھارنے کی تربیت حاصل کر رہا ہوں اگر اسے راہ راست پر لے ایا تو پوری دنیا کو راہ راست پر لے اؤں گا۔ قائدانہ صلاحیتوں کے حامل لوگ خواب دیکھتے ہیں ان پر عمل کرنا جانتے ہیں ان میں خوف کا عنصر نہ ہونے کے برابر ہوتا اور حالات اور رویے ان کے سامنے دیوار نہیں بن سکتے۔ .کامیابی کی بلندیوں کو چھونے کے لیے بہت سی ناکامیوں اور الجھنوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے ٹھوکروں کی تمام سرحدیں پار کرنا پڑتی ہیں بہت سے لوگ منزل کے اکثر بہت قریب تر ہو کر ہار مان جاتے ہیں ایسا نہیں لگتا ہے انہیں لگتا ہے کہ انہوں نے اتنی محنت بےکار کی شاید ان کے حصے میں ناکامی کے سوا کچھ نہیں ایسا نہیں ہوتا کہ وہ اپنے یقین کی طاقت کو کمزور کر دیتے ہیں ایمان ڈگمگا جاتا ہے جب وہ بھول جاتے ہیں کہ جتنی بڑی منزل اتنی بڑی ازمائش اور قربانیاں اللہ اللہ پاک ان کے جنون اور جذبے کو دیکھ کر اس کی ازمائشیں اس لیے بڑھا دیتا ہے کیونکہ وہ صرف اس کا صبر اس کا ضبط اور اس کا یقین ازمانا چاہتا ہے اور ہم نادان اکثر اپنی کم فہمی کی بدولت یہ سمجھتے ہیں کہ شاید اللہ ہی نہیں چاہتا ایسا نہیں ہے جب اللہ پاک نے اپنے کلام میں خود فرمایا ہے کہ انسان کے لیے ہی وہی سب کچھ ہے جس کی اس نے کوشش کی ہے ۔,اللہ پاک فرماتے ہیں جس نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تھا کہ تم لوگوں کو ازمائے کہ تم میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے واصف علی واصف یہ فرماتے ہیں کہ پریشانی حالات سے نہیں خیالات سے ہوتی ہے اور جیسے ہم غم سمجھتے ہیں در اصل وہ ہماری مرضی اور اللہ کی منشا کے فرق کا نام ہے جو لوگ ناکامی کو عذر بنا کر شانی کی دلدل میں اتر جاتے ہیں ان کی زندگی روک ہو جاتی ہے اور وہ پریشانی کی دلدل میں دھنستے ہی چلے جاتے ہیں مگر وہ باہمت لوگ جو ناکامی کو کامیابی کا پہلا زینہ سمجھ کر جشن مناتے ہیں قسمت ان پر مہربان ہوتی چلی جاتی ہے ۔۔۔۔ہماری زندگی میں بھی مشکلات و مصائب اتے ہیں اور یہ ہم پر منحصر کے ہم ہار مان کر ان کے نیچے دب جائیں یا ان کے اوپر چڑھ کر مشکلات کے کنویں سے باہر ائیں,,کیونکہ پرعزم انسان اپنا راستہ کبھی نہیں بدلتا زندگی کبھی بھی کامل نہیں ہوگی ہمارا واسطہ ہمیشہ مشکل وقتوں سے رہے گا ایک بار جب ہم اس تلخ حقیقت و سمجھ جائیں گے راستے میں رکاوٹیں ائیں گی جو اپ کو نیچے لانے کی کوشش کریں گی مگر ایک کامیاب اور خوشگوار زندگی گزارنے کا راز حقیقت کو سمجھنا ہے شکریہ
تحریر:عباس ملک
Comments are closed.