این جے پی ایم سی اجلاس ، ججوں کے لیے کارکردگی کے اشاریے، خودکار جائزہ نظام اور عدالتی آزادی کے تحفظ پر زور

این جے پی ایم سی اجلاس ، ججوں کے لیے کارکردگی کے اشاریے، خودکار جائزہ نظام اور عدالتی آزادی کے تحفظ پر زور

اسلام آباد

شمشاد  مانگٹ

 قومی عدالتی پالیسی سازی کمیٹی (این جے پی ایم سی) نے جمعہ کے روز ہونے والے اہم اجلاس میں عدلیہ کی کارکردگی، شفافیت اور آزادی کو مؤثر بنانے کے لیے وسیع اصلاحات پر غور کیا۔ اجلاس کی صدارت چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس یحییٰ آفریدی نے کی، جس میں ججوں کے لیے کارکردگی کے کلیدی اشاریے (KPIs) متعارف کرانے، ڈیٹا پر مبنی جائزہ نظام اپنانے، اور ضلعی و اعلیٰ عدلیہ میں معیاری تربیت، تقرری اور احتساب جیسے امور پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔

چیف جسٹس نے زور دیا کہ ججوں کی کارکردگی کا جائزہ خالصتاً ڈیٹا پر مبنی اور خودکار نظام کے تحت کیا جانا چاہیے، جس میں مقداری (quantitative) اور معیاری (qualitative) دونوں پہلو شامل ہوں۔ انہوں نے کہا کہ:

“عدالتی فیصلہ نہ صرف قانون پر مبنی ہونا چاہیے بلکہ جج کی شخصیت، دیانتداری اور قابلیت کا عکاس بھی ہونا چاہیے۔”

اجلاس میں ضلعی عدلیہ میں اصلاحات سے متعلق ذیلی کمیٹی کی سفارشات پر بھی غور کیا گیا۔ سفارشات میں شامل اہم نکات درج ذیل ہیں:

ججوں کے لیے KPIs جو ورلڈ جسٹس پروجیکٹ کے رول آف لا انڈیکس سے ہم آہنگ ہوں۔

عدالتی تقرریوں کے لیے یکساں اہلیت اور بھرتی کے اصول وضع کرنا۔

امتحانات کے لیے متحدہ نصاب اور جانچ کے نظام کا قیام۔

ججوں کے لیے مشترکہ اور مخصوص تربیتی پروگرام تشکیل دینا۔

ضلعی عدلیہ کے ارکان کے لیے یکساں سروس اسٹرکچر اور ضوابط۔

چیف جسٹس نے خصوصی عدالتوں کے ججوں کے لیے ڈپلومہ کورسز اور ذہنی دباؤ سے نمٹنے کے لیے کونسلنگ سیشنز کی تجویز بھی پیش کی۔

چیف جسٹس نے ضلعی عدلیہ میں ججوں پر بیرونی دباؤ کے انسداد کے لیے کیے گئے اقدامات کو سراہا اور کہا کہ ایسے ادارہ جاتی تحفظات اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کے لیے بھی ناگزیر ہیں۔

انہوں نے ججوں کے ضابطۂ اخلاق میں ترامیم کی تجویز دی تاکہ بیرونی دباؤ کے خلاف ادارہ جاتی ردِعمل کو باقاعدہ بنایا جا سکے۔ ان ترامیم میں سپریم جوڈیشل کونسل کی ماضی میں منظور شدہ دفعات کو بھی شامل کیا جائے گا جو اب تک رسمی طور پر ضابطے کا حصہ نہیں بنیں۔

اس کے علاوہ، ججوں کی میڈیا سے وابستگی سے متعلق شق پر بھی تفصیلی گفتگو کی گئی۔

قانون و انصاف کمیشن کے سیکریٹری نے اجلاس کو بتایا کہ نیشنل جوڈیشل آٹومیشن کمیٹی (NJAC) نے جنریٹیو مصنوعی ذہانت (AI) کے عدلیہ میں اخلاقی استعمال کے لیے رہنما اصولوں کا مسودہ تیار کر لیا ہے۔

یہ فریم ورک نہ صرف قومی ڈیجیٹل پالیسیوں سے ہم آہنگ ہے بلکہ بین الاقوامی اخلاقی اصولوں پر بھی پورا اترتا ہے، تاکہ AI کا استعمال عدالتی فیصلوں میں شفافیت اور درستگی لانے کے لیے کیا جا سکے۔

اٹارنی جنرل آف پاکستان منصور عثمان اعوان نے کمیٹی کو آگاہ کیا کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 11EEEE میں حالیہ ترمیم کے ذریعے جبری گمشدگیوں کے مسئلے کو بڑی حد تک حل کر لیا گیا ہے۔ اب کسی بھی زیرِ حراست شخص کو 24 گھنٹوں کے اندر مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنا لازمی ہوگا۔

انہوں نے یقین دہانی کرائی کہ عمل درآمد نہ ہونے کی صورت میں شکایات کے ازالے کے لیے حکومت ایک جامع طریقہ کار تیار کر رہی ہے، جو آئندہ اجلاس میں پیش کیا جائے گا۔ کمیٹی نے اس یقین دہانی کو سراہا۔

اجلاس کے اختتام پر فیصلہ کیا گیا کہ تمام ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے گی، جو ان سفارشات کا تفصیلی جائزہ لے کر آئندہ اجلاس میں حتمی سفارشات پیش کرے گی۔

چیف جسٹس نے انصاف کے نظام کو مستحکم بنانے، ادارہ جاتی ہم آہنگی کو فروغ دینے، اور عدلیہ پر عوام کے اعتماد کو بڑھانے کی مسلسل کاوشوں پر تمام ہائی کورٹس، وزارتِ قانون، اور قانون و انصاف کمیشن کے کردار کو خراجِ تحسین پیش کیا۔

Comments are closed.