بلاتامل: شاہد اعوان
اللہ والے فرماتے ہیں جو مرید اپنے مرشد کی ہدایت پر بلا چوں چرا عمل کرے گا ہمیشہ فائدے میں رہے گا۔ ناقص مرید بے شعور اور باطن مین معرفتِ الٰہی سے بے خبر ہوتا ہے جب مرید نے بیعت کر لی تو اس پر علمِ باطن حاصل کرنا فرض ہو گیا مرید کو چاہئے کہ وہ اپنے مرشد کی خدمت میں باادب رہے اور روحانی ترقی کے زینے طے کرے۔ مرید اپنے دل کا رخ ہر طرف سے پھیر لے اور اپنے مرشد کی طرف متوجہ ہو جائے۔ مرید کو اپنے مرشد کے ساتھ ایسا عقیدہ رکھنا چاہئے کہ وہ اپنے دل میں تصور کرے کہ سارے جہاں میں جو فیض ہے وہ سب میرے مرشد کا ہے۔ مرشد حقیقی اور کامل وہی ہے جو حضور صاحبِ لولاکؐ کی پوری اتباع کرتا ہو تب مرید کے دل میں بغیر مرشد کے اللہ تعالیٰ اور اس کے حبیبؐ کی محبت پیدا ہوتی ہے۔ حضرت رابعہ بصریؒ سے کسی نے سوال کیا کہ آپ نے شادی نہیں کی کیا آپ کو شیطان سے ڈر نہیں لگتا؟ مائی صاحبہ نے فرمایا ”مجھے رحمان سے ہی فرصت نہیں ملتی۔“ خواجہ غریب نوازؒ فرماتے ہیں ”میری ہر سانس کے ساتھ اللہ بسا ہوا ہے۔“ ایسے برگزیدہ اور پاکیزہ نفس بندے جن کا ذہن ایمان و ایقان سے معمور ہوتا ہے وہ اللہ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ ہر وقت خیر کی طرف متوجہ رہتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ شرو اور خیر لازم و ملزوم ہیں بالکل ایسے جیسے روشنی اور تاریکی، گرم اور سرد، تلخ و شیریں۔ ایسے درویش پاکیزہ نفوس ہیں جن کے بارے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ”ہمارے بندے ایسے بھی ہیں جو ہماری زبان بولتے ہیں۔“
بندہ عاصی کے مرشد گرامی قدر حضرت محمد طارق اعظم المعروف پیر ثانی سرکار شریعت و طریقت میں ید طولیٰ رکھتے ہیں، ضلع اٹک کے شمال مشرق کے ایک چھوٹے سے گاؤں سالک آباد میں گزشتہ اور موجودہ صدی کے وہ مردِ درویش آباد ہیں جن کے مریدین کی تعداد لاکھوں میں ہے چاروں صوبوں اور آزاد کشمیر میں ان کے روحانی فیوض و برکات کے چرچے زبان زد عام ہیں۔ آپ سلسلہ نقشبندیہ کے وہ شیخ ہیں جن کی سخاوت اور اخلاقِ حسنہ کی مثالیں دی جاتی ہیں۔ 12 سال قبل ایک بے راہ رو کو اس پیر خانہ سے جوڑنے میں پیر ثانی سرکار کے بردرِ خورد اور جانشین دربار پیر سلطان سرکار کی خصوصی مہربانیاں شاملِ حال رہیں، پیر سلطان کے ساتھ تعلق خاطر دودہائیوں پر محیط ہے آپ خوش گلو نعت خواں ہونے کے ساتھ ساتھ بے مثل خطیب بھی ہیں لاکھوں کے مجمع کو یوں گرفت میں لے لیتے ہیں کہ بڑے بڑے عالم فاضل بھی انگشت بدنداں ہو کر سبحان اللہ، سبحان اللہ کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ آپ کی صحبت میں جہاں فقیر نے دیگر خانقاہی مراتب اور راہِ سلوک کا مشاہدہ کیا وہاں ان کے طفیل مرشد کی بندگی اور ادب و احترام کے فلسفہ سے بھی ایسی روشناسی ہوئی کہ برسوں کے عمر رسیدہ مریدین بھی اپنی اصلاح پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ تقریباٌ ایک سال قبل جب مرشد پیر ثانی سرکار نے محسوس کیا کہ وہ اپنی ذمہ داریاں کسی اہل اور مضبوط عقیدت مند کے سپرد کریں تو یقیناٌ نظرِ انتخاب پیر سلطان سرکار پر ٹھہری اور جانشینی کی بھاری ذمہ داری ان کے کندھوں پر ڈال دی جس کا حق وہ بخوبی نبھا رہے ہیں۔ دربار اعظمیہؒ رحیمیہؒ میں مریدین کو تعویزاتِ خیر کافی عرصہ سے دئیے جا رہے تھے عقیدت مندوں کے بے حد اصرار پر بیماروں کے لئے ”دَم“ کا فریضہ پیر ثانی سرکار نے اپنے جانشین کو تفویض کرنے کا مستحسن فیصلہ فرمایا، اب تک ہزاروں کی تعداد میں لوگ اللہ کے حکم سے فیضیاب ہو کر تندرست ہو رہے ہیں۔ فقیر بھی کبھی کبھار وہاں پر آنے والے مریضوں سے ملنے حاضری دیتا ہے اور ایک کونے میں بیٹھ کر دکھی انسانیت کی خدمت کے روحانی نظارے کرتا رہتا ہے۔ وہاں مریضوں کے بیٹھنے کے لئے بہترین قالین ایستادہ کئے گئے ہیں مردو خواتین کے لئے الگ الگ وسیع و عریض ہال ہیں مریضوں کی تواضع ٹھنڈے میٹھے مشروبات سے کی جاتی ہے، مہمانوں کی عزت و تکریم اور خدمت کے لئے نوجوان طلبا و طالبات ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں اور نماز ظہر کے بعد بہترین لنگر سے مہمانوں کی تواضع کی جاتی ہے جو کسی بھی فائیور سٹار ہوٹل سے کم نہیں ہوتا۔ ان دنوں دربار شریف میں حضرت مجدد الف ثانیؓ کے سالانہ عرس کی تیاریاں عروج پر ہیں مرشد پاک پیر ثانی سرکار کی حج بیت اللہ، محرم الحرام، میلاد پاک اور عرس پاک مجدد الف ثانیؓ کے مواقع پر حالت ایسی ہوجاتی ہے کہ ان کا بس چلے تو دنیا کی مہنگی و اعلیٰ ترین اشیائے خوردونوش مریدوں کے سامنے پیش کر دیں۔ گزشتہ جمعتہ المبارک کو اپنی اہلیہ کے ہمراہ دربار شریف پر حاضری کا شرف ملا حسبِ سابق پیر سلطان سرکار مریضوں کے گھیرے میں تشریف فرما تھے بندہ عاصی کو اپنے سامنے پا کر پاس بلایا اور مکمل توجہ میری جانب کر کے عزت افزائی فرمائی مگر عاجز اس کرم فرمائی پر پسینے سے شرابور شرمندگی سے زمین میں گڑھا جا رہا تھا گویا
میں نیواں میرا مرشد اُچا، میں اُچیاں دے سنگ لائی۔۔۔
جانشین پیر ثانی سرکار وہاں پر موجود مریضوں کے سامنے حضرت مجدد الف ثانیؓ کی حیاتِ طیبہ کے روشن پہلوؤں کو اجاگر کر رہے تھے۔ دورانِ گفتگو صحابیئ رسولؐ خواجہ اویس قرنیؓ کا ذکر آگیا، فرمانے لگے کہ جب حضرت عمر فاروقؓ اور مولا علی کرم اللہ وجہہ جناب رسالت مآبﷺ کے حکم کے مطابق علاقہ ’قرن‘ میں حضرت اویس قرنیؓ سے ملنے تشریف لے گئے اور آپؐ کا جبہ مبارک انہیں پیش کیا تو اویس قرنیؓ نے کمال ادب و تکریم سے آقا کریمﷺ کے جبہ مبارک کی جانب اشارہ فرماتے ہوئے ہاتھ کھڑے کیے ”یا اللہ! اس جبے والے کے صدقے امتِ محمدیؐ کو بخش دے۔“ پھر سب سے مخاطب ہو کر پیر سلطان نے کہا کہ میں بھی اپنے مرشد کی ”کھونڈی“ کو وسیلہ بنا کر دَم کرتا ہوں اور مریض صحت یاب ہو جاتے ہیں۔ یہ قرینہ ادب شناسوں کے سوا آخر کون جان سکتا ہے، اسی لئے کہتے ہیں باادب بامراد اور بے ادب بے مراد!!!
Comments are closed.